پُرتشدد حملہ آوروں کی شناخت پر توجہ مرتکز رکھنے کی ضرورت

اورلینڈو

بقول ایک نامور تجزیہ کار ’’ساری 50 ریاستوں کے پاس چھان بین کے ہزاروں معاملات ہوتے ہیں اور وہ تبھی کسی بات کا فیصلہ کرتے ہیں جب کوئی اپنے منہ سے کچھ اگلتا ہے اور وہ تشدد کی راہ کی جانب کوئی قدم بڑھاتا ہے‘‘

اتوار کو فلوریڈا کے شہر اولینڈو میں ہونے والے حملے کی طرح کے واقعے کے نتیجے میں نہ صرف عوام میں صدمہ اور مایوسی پھیلتی ہے بلکہ یہ سوالات پھر سے جنم لیتے ہیں آیا اسی قسم کے واقعات کو روکنے کے لیے حکومت کیا کر ککھ سکتی ہے۔

فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کو حملہ آور، عمر متین کے بارے میں پتا تھا جنھیں وہ سنہ 2013اور 2014ء میں انٹرویو کر چکے تھے۔ لیکن، ایک اہل کار کہا کہنا ہے کہ تفتیش کاروں کو اُن کے بارے میں کسی مجرمانہ سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔
سیمس ہیوگس ’جارج واشنگٹن یونیورسٹی‘ میں انتہا پسندی کے بارے میں مطالعے کے پروگرام کی معاون سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ادارہ آئندہ چند دِنوں کے دوران اس بات کا جائزہ لے گا آیا متین کا کیس کیوں بند کیا گیا، اور آیا یہ مناسب اقدام تھا۔

ہیوگس نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’یہ معاملہ ہمیشہ تبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے جب کوئی شخص قدامت پسندانہ نظریات پر مبنی قدم اٹھا چکا ہوتا ہے۔ اور اس وقت ’ایف بی آئی‘ اسی قسم کے معاملے سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’ساری 50 ریاستوں کے پاس چھان بین کے ہزاروں معاملات ہوتے ہیں اور وہ تبھی کسی بات کا فیصلہ کرتے ہیں جب کوئی اپنے منہ سے کچھ اگلتا ہے اور وہ تشدد کی راہ کی جانب کوئی قدم بڑھاتا ہے‘‘۔

ڈینئل پائپس ’مڈل ایسٹ فورم‘ کے صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکام کے لیے ممکنہ پُرتشدد انتہا پسند کا کھوج لگانا مشکل کام ہے، چونکہ ضروری طور پر اُن کا جرم کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا یا پھر اُن افراد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جو تشدد کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ بہت برس قبل اُنھوں نے ’سڈن جہاد سینڈروم‘ میں اس بات کا حوالہ دیا تھا۔ بقول اُن کے، ’’اس معاملے میں، فوری طور پر باہر سے کوئی انتباہ نہیں ملتا۔ اس معاملے میں ایک آدمی سکیورٹی گارڈ ہے جس کا تین برس کا ایک بیٹا ہے۔ جو بظاہر معاشرے میں رچ بس چکا ہے۔ اُن کے ذہن میں ایسے خیالات ہیں جس سے وہ اس طرح کے رویے کا مظاہرہ کرسکتا ہے اور لوگوں کا قتل عام کرے گا؟‘‘

اولینڈو حملہ آور نے ہنگامی صورت حال سے نبردآزما ہونے والے اداروں کو ٹیلی فون کال کرکے داعش سے وفاداری کا دعویٰ کیا، جب کہ اس شدت پسند گروپ نے اپنے میڈیا ذرائع سے یہ دعویٰ کیا کہ اُسی کے ایک لڑاکے نے یہ حملہ کیا۔

ماریل ہیرس انسداد انتہاپسندی پر مطالعے سے وابستہ ادارے (سی اِی پی) میں سینئر تحقیق داں ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ابھی یہ بات واضح نہیں آیا حملہ آور کو کتنی براہِ راست مدد میسر آئی ہوگی۔ لیکن، ہر صورت میں اس کے لیے سودمند ہوگا کہ وہ ایک طاقتور تنظیم کا نام لے، جب کہ داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کی، جو بیان مغربی ذرائع ابلاغ میں شد و مد سے شائع ہوا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ قدامت پسندی میں انٹرنیٹ کا بھی خاصا کردار رہا ہے۔ اور ضرورت اس بات کی ہے سماجی میڈیا کے ادارے کھل کر انسداد کے کام میں حصہ لیں۔

بقول اُن کے، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ عمر متین سماجی میڈا پر کتنا سرگرم تھا۔ لیکن، ہمارے اندازے کے مطابق، اُن میں شدت پسندی انٹرنیٹ کے ذریعے سے ہی پیدا ہوئی۔ وہ کبھی داعش کے زیر تسلط علاقے میں نہیں گیا۔ وہ نیویارک مین پیدا ہوا۔ اُس نے اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت فلوریڈا میں گزارا۔ اِن دِنوں لوگ معلومات کہاں سے لیتے ہیں؟ یہ انٹرنیٹ ہی پر میسر ہے۔ وہ شدت پسند کیسے بنتے ہیں؟ انٹرنیٹ ہی کے ذریعے‘‘۔

ہیرس نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ ظاہرہ تعلق کے علاوہ دیگر اہم انتہاپسندانہ شہ فیس بک اور ٹوئٹر کے رابطے سے مل سکتی ہے، اور ایسے افراد ’انکرپٹڈ پلیٹ فارمس‘ کی جانب پلٹتے ہیں، جس کا سراغ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’سی اِی پی‘ کا ادارہ ہیش ٹیگ

CEPDigitalDisruption #استعمال کرتے ہوئے انتہاپسندوں کے اکاؤنٹس کا کھوج لگا کر انھیں بند کرتا ہے، جب کہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن، ترک اور عربی میں
شائع ہونے والی پوسٹس پر نظر رکھی جاتی ہے۔

ہیرس کے بقول، ’’ہمیں اِن انتہاپسندوں پر نظر رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ دیکھتے ہیں کہ آن لائن شدت پسند کیسے بڑھتی ہے، چونکہ یہی نصف میدانِ جنگ ہے‘‘۔
انٹرنیٹ سرگرمیوں پر نگرانی کے بارے میں کسی طرح کی گفتگو، خصوصی طور پر امریکیوں کے بارے میں ایسا عمل کرنے سے، مباحثہ چھڑ جاتا ہے کہ سکیورٹی کو کس طرح یقینی بنایا جائے، جب کہ رازداری کی حرمت کے تقاضے کس طرح پورے ہوں۔

ہیوگس کے الفاظ میں ’’ایسے میں توازن برقرار رکھنا مشکل کام ہے۔ عام آدمی کی حیثیت سے ہم ایف بی آئی یا قانون کا نفاذ کرنے والے کسی ادارے سے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ اُن کی کامیابی کی شرح 100 فی صد ہوگی۔ یہ حقیقت پر مبنی بات نہیں ہوگی۔ آپ کو کئی لوگ ملیں گے جو شدت پسندی میں ملوث لگیں گے جسے آپ روک نہیں سکتے، اور ایک آزاد معاشرے میں رہنے کا یہی چیلنج ہے‘‘۔

پائپس نے کہا ہے کہ اسلامی شدت پسندوں کے انسداد کے لیے بہترین طریقہٴ کار پولیس پر انحصار نہیں۔ برعکس اس کے، ہمارا دھیان اِن خوفناک نظریات کے انسداد پر لگا رہنا چاہئیے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ اسلحے کا معاملہ نہیں۔ یہ غربت سے متعلق بات نہیں۔ یہ ذہنی بیماری کا معاملہ نہیں۔ یہ خیالات کا معاملہ نہیں۔ یہ فاشزم، کمیونزم اور اب اسلام ازم کے انتہائی بدنما نظریات ہیں۔ ہمیں اِن پر دھیان مرتکز رکھنا ہے۔ ہم اس مسئلے کو تب تک حل نہیں کرسکتے جب تک ہم اِن بدنما نظریات سے نہیں نمٹتے‘‘۔