کیا دنیا کی ساری زبانیں ایک زبان سے نکلی ہیں؟

کیا دنیا کی ساری زبانیں ایک زبان سے نکلی ہیں؟

کہا جاتا ہے کہ آدم علیہ السلام اور ان کی قوم ایک ہی زبان بولتی تھی۔ تاہم کچھ عرصے بعد انسان نے ایک مینار بنا کر آسمان تک پہنچنے کی کوشش کی، جسے مینارِ بابل کہا جاتا ہے۔ خدا نے اس گستاخی کی یہ سزا دی کہ مینار کی مختلف منزلوں پر رہنے والوں کی زبانیں مختلف کر دیں تا کہ وہ ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ سکیں۔

تاہم جدید ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ زبانوں میں عقل کو چکرا دینے والا صوتی اور نحوی تنوع ہزاروں سال کے دوران رونما ہوا ہے۔ جب کہ چند ماہرینِ لسانیات ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اس تمام تر رنگا رنگی یا انتشار کے باوجود ان ساری کی ساری زبانوں کے ڈانڈے ایک ہی زبان سے ملتے ہیں۔

آخر یہ ماہرین اس نتیجے تک کیسے پہنچے؟ ہم نے یہی سوال میرٹ رُولن (Merritt Ruhlen) کے سامنے رکھا جو بعض حلقوں کے مطابق اس وقت دنیا کے سب سے بڑے ماہرِ لسانیات ہیں۔ موصوف کیلی فورنیا میں واقع سٹینفرڈ یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں اور لسانیات کے موضوع پر کئی کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔ میرٹ رولن اور ان کے ساتھی ماہرینِ لسانیات تو ضرور ہیں لیکن وہ لسانی تحقیق کے لیے دوسرے سائنسی شعبوں سے استفادہ کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ انھوں نے ابتدائی زبان کا کھوج لگانے کے لیے جدید جینیات اور علمِ آثارِ قدیمہ سے بھی بھرپور مدد لی ہے۔

میرٹ رولن کہتے ہیں کہ جدید جینیاتی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً پچاس ہزار برس قبل انسانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ مشرقی افریقہ سے باہر نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گروہ ایک ہی زبان بولتا تھا اور لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے علاقائی اور موسمی تغیرات کے زیرِ اثر انسانی رنگ روپ اور خد و خال میں تبدیلیاں آتی گئیں، ویسے ہی یہ ابتدائی زبان مختلف خطوں میں جا کر بدلتے بدلتے ہزاروں مختلف اور باہم ناقابلِ فہم زبانوں میں ڈھلتی گئی۔

میرٹ رولن

اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے رولن نے کہا کہ اردو، ہندی، گجراتی، مراٹھی وغیرہ ایک ایسے لسانی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں جسے ’اِنڈک‘ گروہ کہا جاتا ہے۔ انڈک بذاتِ خود ایک بڑے خاندان ’انڈویوروپین‘سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح انڈو یورپین خاندان زبانوں کے ایک اور خاندان سے مشابہت رکھتا ہے جسے ’یورالک‘ خاندان کہا جاتا ہے۔ اس خاندان میں ترکی، منگولیائی، ہنگیریائی، اور فنش وغیرہ شامل ہیں۔ ان دونوں خاندانوں کو ملا کر ’یوروایشیاٹک خاندان‘ کہا جاتا ہے۔

رولن کہتے ہیں کہ دنیا کی تمام زبانوں کو یورو ایشیاٹک کی طرح کے 12 بڑے خاندانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ 12 خاندان بھی ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ جزیرے نہیں ہیں بلکہ ان کی کئی خصوصیات ایک دوسرے سے ملتی ہیں، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سارے خاندان شروع میں ایک تھے۔

اس قسم کی تحقیق ایسی ہی ہے جیسے کوئی درخت کے پتوں سے سفر کا آغاز کرے اور ڈنٹھلوں، ٹہنیوں، ڈالیوں اور شاخوں سے ہوتا ہوا تنے تک پہنچنے کی کوشش کرے۔

پروفیسر روُلن اور ان کے استاد جوزف گرین برگ اس ضمن میں ایک لفظ ’ٹیک‘(tik) کی مثال پیش کرتے ہیں۔ یہ لفظ دنیا کے اکثر لسانی خاندانوں میں پایا جاتا ہے اور اس کا مطلب ہر جگہ کم و بیش ایک جیسا رہتا ہے۔ مذکورہ بالا صاحبان کا خیال ہے کہ اس لفظ کا ابتدائی مطلب تھا ’انگلی‘، لیکن بعد میں اسی لفظ کا ماخوذ مطلب ہو گیا، ’ایک‘ یا ’صرف۔‘

اب ذرا دنیا بھر میں اس ایک لفظ کی ’کثرت میں وحدت‘ کی جلوہ آرائیوں کی چند عجیب و غریب مثالیں ملاحظہ کیجیئے

مطلب

لفظ

زبان

لسانی خاندان

ایک

ٹک

مابا

افریقی زبانیں

ایک

ٹوک

ڈنکا

ایک

ٹی

ساہو

انگلی

ڈجی ٹس

لاطینی

یورپی زبانیں

انگشتِ شہادت

ان’ ڈیک‘س

لاطینی

انگلی

ٹیک

انوپیاق

اسکیمو زبانیں

درمیانی انگلی

ٹیک

الیوٹ

ایک

ٹی ایک

چینی

چینی تبتی زبانیں

درمیانی انگلی

ٹیکا

می ووک

ہند امریکی زبانیں

ایک

ٹُک

مکسے

انگلی، ہاتھ

اٹیکلا

کاہوآپنا

صرف

ٹیکوا

سیونا

مشہور ماہرِ لسانیات جوزف گرین برگ



اسی تنوع کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پرانی اردو میں ایک لفظ اکثر دیکھنے میں آتا ہے، ٹُک۔ اس کی سب سے مشہور مثال میر کا شعر ہے

سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

ٹک کا مطلب ہے، ذرا، تھوڑا سا، وغیرہ۔ اگرچہ گرین برگ اور رُولن نے مندرجہ بالا فہرست میں اردو کا ذکر نہیں کیا، لیکن لفظ ٹک بھی واضح طور پراسی قبیل کا ہے۔ اس کے علاوہ چغتائی ترکی میں ایک لفظ پایا جاتا ہے ’ٹیک‘ اور اس کا مطلب بھی ’صرف‘ ہے۔ اسی طرح ترکی کے لفظ ’ٹیکن‘ کا مطلب ’ایک ایک کر کے‘ ہے۔ یہی نہیں بلکہ مغربی چین کے باسی مسلمانوں کی زبان ایغور بھی لفظ ’ٹک‘ ملتا ہے، اور اس کا مطلب بھی ’صرف‘ ہے۔

اب کوئی معترض یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اردو، ایغور اور ترکی میں تاریخی اور جغرافیائی اختلاط پایا جاتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جنوبی امریکہ کے ملک ایکواڈور میں بولی جانے زبان سیونا (Siona) کے ساتھ اُردو کا کیا تعلق ہے؟

یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ پروفیسر رولن کے ناقدین کی کمی نہیں، اور ان میں سے کئی تو ایسے بھی ہیں جو ان کے نظریات کی انتہائی شد و مد سےمخالفت کرتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات تو نوبت تلخ کلامی اور ذاتیات تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ معترضین کہتے ہیں کہ اس طرح کے الفاظ کا مختلف زبانوں میں پایا جانا محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اپنے اس دعوے کے ثبوت کے طور پر وہ مختلف زبانوں میں ایسے اتفاقیہ الفاظ کی کوئی فہرست فراہم نہیں کر سکے۔

اردو، پنجابی سمیت شمالی ہندوستان کی بیشتر زبانیں ’انڈو یوروپین‘ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان زبانوں میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن، روسی، لاطینی، یونانی اور فارسی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ انڈو یوروپین خاندان کا ماخذ کیا ہے اور اس کے اولین بولنے والے کون تھے، یہ سوال انتہائی متنازع رہا ہے اور گذشتہ کئی صدیوں سے اس پر بحث و تمحیص جاری ہے۔

ہم نے اوپر تذکرہ کیا تھا کہ رولن علمِ آثارِ قدیمہ سے بھی رجوع کرتے ہیں۔ ان کے ساتھی کولن رین فریو مشہور ماہرِ آثارِ قدیمہ ہیں۔ انھوں نے 90 کی دہائی میں ایک نظریہ پیش کیا تھا جس کے مطابق آج سے تقریباً سات ہزار برس پیشتر ترکی سے ایک قوم اٹھی اور چند صدیوں کے اندر اندر سارے یورپ اور وسطی ایشیا پر چھا گئی۔ اس قوم کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ زراعت کے علم سے بہرہ ور تھے، جب کہ ان سے پہلے یورپ کے ’ایبورجنل‘ یا آبائی باسی صرف شکار سے پیٹ پالا کرتے تھے۔

رین فریو کے مطابق یہ لوگ اپنی زبان بھی ساتھ یورپ لے گئے تھے۔ یہ وہی زبان ہے جسے آج کل ’پروٹو انڈویوروپین‘ کہا جاتا ہے۔ اس زبان نے رفتہ رفتہ یورپ کی قدیم زبانوں کو معدوم کر کے ان کی جگہ لے لی۔ ان قدیم یورپی زبانوں کی ایک بچی کھچی مثال باسک زبان ہے جو آج بھی سپین اور فرانس کے بعض علاقوں میں بولی جاتی ہے۔

کولن رین فریو اور میرٹ رولن کا خیال ہے کہ بیشتر انڈو یوروپین زبانوں کا منبع ترک کسانوں کی یہی زبان ہے۔ پروفیسر رولن نے مثال دی کہ اس خاندان کی اکثر زبانوں میں واحد متکلم کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، وہ حرف م سے شروع ہوتے ہیں، جب کہ مخاطب کے لیے الفاظ ت سے شروع ہوتے ہیں۔

اردو اسی خاندان کی ’بیٹی‘ ہے، چناں چہ یہاں واحد متکلم ’میں‘ اور واحد مخاطب ’تم‘ ہیں، اور قریب قریب یہی حال شمالی ہندوستان کی اکثر زبانوں کا ہے۔ فارسی میں دیکھیئے تو وہاں’ من و تو‘ ملیں گے۔ یہی نہیں بلکہ یورپ کی اکثر زبانوں میں مذکورہ الفاظ کے لیے انہی آوازوں کی تکرار ملے گی، جب کہ لاطینی زبان میں تو مخاطب کے لیے اردو اور فارسی والے ’تُو‘ ہی سے کام چلایا جاتا ہے۔

اوپر باسک کا ذکر آیا تھا۔ اس زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ’لینگویج آئسولیٹ‘ ہے، یعنی ایک ایسی زبان جس کا تعلق دنیا کی کسی اور زبان سے نہیں ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ میں بھی ایسی ہی ایک اور ’لینگوج آئسولیٹ‘بولی جاتی ہے۔ جس کا نام ہے بروشسکی۔ اس زبان کی مثال کچھ یوں سمجھیئے کہ جیسے اردو کے افسانہ نگار سید رفیق حسین نے اپنے شاہ کار افسانے ’گڈھا‘ میں محکمہٴ انہار کے بارے میں لکھا تھا کہ ’یہ ایک ایسا محکمہ ہے جس کا نہ کسی دوسرے محکمے سے سروکار اور کسی اور محکمے کا اس سے کوئی لینا دینا۔‘

دنیا کے 12 بڑے لسانی خاندان

ہم نے ڈاکٹر رولن سے پوچھا کہ اگر تمام زبانوں کی بنیاد ایک ہی ہے تو پھر یہ ’اچھوتی‘ زبانیں کیسے وجود میں آ گئیں؟

اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ زبانیں مکمل طور پر ان چھوئی نہیں ہیں اور گذشتہ بیس برسوں میں بعض ماہرینِ لسانیات نے بروشسکی، باسک اور ایک اور آئسولیٹ کیٹ (Ket) میں کچھ قدر ہائے مشترک تلاش کی ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ تینوں زبانیں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جسے ’ڈینے کاکیشین‘ (Dene Caucasian) کہا جاتا ہے۔ چینی زبان بھی اسی خاندان کی رکن ہے۔

پروفیسر رولن اور ان کے گرو جوزف گرین برگ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ زبانیں اتنی تیزی سے رنگ بدلتی ہیں کہ ان کے ہزاروں سال پرانے ماخذات کے بارے میں کچھ بھی کہنا ناممکن ہے۔ لیکن رولن کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور کئی الفاظ ایسے ہیں جو بڑی مشکل سے بدلتے ہیں۔ ان الفاظ میں بنیادی اعضا کے نام (ہاتھ، انگلی، آنکھ، ناک، کان، وغیرہ)، بنیادی رشتے (ماں، باپ، بیٹا، وغیرہ) اور قدرتی مظاہر (آگ، پانی، وغیرہ) شامل ہیں اور یہ سب اتنے سخت جان الفاظ ہیں کہ انھیں بدلتے بدلتے بہت وقت لگتا ہے۔

زبان کی شیرازہ بندی کے یہ ماہرین اسی قسم کے ثابت قدم الفاظ کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی مدد سے خاندانوں کو گروہوں اور خاندانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

اس وقت میرٹ رولن ایسے ماہرینِ لسانیات کے سرخیل ہیں اور توقع رکھی جا سکتی ہے کہ آنے والے برسوں میں وہ زبان کے ارتقا پر مزید روشنی ڈالیں گے جس سے نہ صرف علمِ لسانیات میں اضافہ ہو گا بلکہ انسان کے تاریخی اور تہذیبی سفر کے کئی تاریک گوشے بھی منّور ہو جائیں گے۔