جان ہینسن صاحب واشنگٹن میں مقیم ہیں، اردو بڑی روانی سے بولتے ہیں، اس شہر میں اردو ادب اور زبان کے موضوع پر منعقدہ تقریبات میں اکثر شرکت کرتے ہیں۔
تقریباًٍ چالیس سال قبل اردو زبان سیکھنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ستّر کے عشرے میں پاکستان گئے ، مقصد اردو زبان کا اکستاب تھا۔
ہینسن صاحب نے کافی عرصہ پہلے وائس آف امریکہ کے ادبی مجلّے’ صدا رنگ‘ کے لیے ایک انٹرویو ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستان اپنے طور پر گئے تھے، سارے اخراجات خود برداشت کیے اور مزے کی بات یہ ہے کہ کسی باقاعدہ اسکول کالج میں داخلہ نہیں لیا، بلکہ درسی کتابیں خرید کر گھر میں پڑھنا شروع کیا اور پھر گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر، عام لوگوں کے ساتھ بات چیت کر کے اس کی مشق کی ۔ یعنی اس زبان کو اسی طرح سیکھا جیسے کہ یہ بر صغیر میں بولی جاتی ہے۔
ہینسن صاحب کہتے ہیں کہ مشکل مرحلہ ان حروف کے ساتھ پیش آیا جن کے مخرج انگریزی سے بالکل جدا ہیں مثال کے طور پر ہندی کے حروف ٹ، ڈ اور ڑ وغیرہ۔ اسی طرح عربی کے ، غ، اور خ۔ بہر حال، کافی مشق کرنا پڑی، تب جاکر ان کو روانی سے ادا کرنےکے قابل ہوا۔ اصل میں صوتی اعتبار سے ایسے حروف انگریزی سے بہت دور ہیں ۔ دوسرا بڑا مرحلہ تذکیر اور تانیث کا ہے۔ اردو میں ہر لفظ یا تو مذکر ہوتا ہے اور یا مونث۔ پھر ایسا بھی ہے کہ عربی میں مذکر لفظ ، اردو میں بطور مونث استعمال ہوتا ہے۔ یہ الجھن صرف مجھے نہیں ہوتی بلکہ اہلِ زبان لوگوں کو بھی رہتی ہے اور وہ بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔
ہینسن صاحب خود کو ادیب یا اہل قلم نہیں سمجھتے ، مگر کبھی کبھار شعر کہہ لیتے ہیں۔ اردو شاعروں میں غالب، حالی اورفیض پسند ہیں، جبکہ نثر نگاروں میں منٹو، انتظار حسین اور قرة العین حیدر کو شوق سے پڑھا ہے۔
ہینسن صاحب کا خیال ہے کہ امریکہ میں اردو کی خاصی ترویج ہورہی ہے۔ اردو کے کئی اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ پھر ادبی محافل بھی ہوتی رہتی ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: