سیاسی راہنماؤں کو تدبر سے کام لینے کا مشورہ

فائل فوٹو

مردم شماری کے عبوری نتائج کی روشنی میں نئی حلقہ بندیوں کے لیے قانون سازی پر حزب مخالف کے تحفظات اور مخالفت کو غیر جانبدار حلقے موجودہ حالات میں ملک کی جمہوریت اور سیاست کے لیے غیر سودمند قرار دیتے ہوئے سیاسی راہنماؤں کو بالغ نظری اور تدبر سے کام لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ہی آئینی ترمیم کے مسودے پر قومی اسمبلی کی پارلیمانی جماعتوں کے راہنماؤں کا مشاورتی اجلاس ہوا جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اعلان کیا تھا کہ اپنے اپنے تحفظات کے باوجود تمام پارلیمانی جماعتیں اس مسودے پر متفق ہیں اور اس کی وجہ ملک میں آئندہ عام انتخابات کا بروقت انعقاد ہے۔

لیکن ہفتہ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ چونکہ سندھ میں مردم شماری کے نتائج سے متعلق ان کی جماعت پیپلزپارٹی کے تحفظات دور نہیں کیے گئے لہذا وہ اس مجوزہ ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے۔

نجی ٹی وی چینل ڈان نے جب ان سے پوچھا کہ اگر یہ ترمیم منظور نہیں ہوتی تو انتخاب تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں تو اس پر خوشید شاہ نے تجویز دی کہ اگر ایسا خدشہ ہے تو انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کے تحت بھی کروائے جا سکتے ہیں۔

مجوزہ ترمیم کے مطابق آبادی کے لحاظ سے خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوگا جب کہ پنجاب کی نشستیں کم ہو جائیں گی۔ سندھ اور قبائلی علاقوں سے ایوان زیریں کی موجودہ نشستوں کی تعداد میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

حزب مخالف کی ایک اور جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی سندھ خصوصاً شہری علاقوں کی آبادی سے متعلق مردم شماری کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہے اور وہ بھی اس آئینی ترمیم کی حمایت کرتی دکھائی نہیں دیتی۔

حکومتی عہدیدارن حزب مخالف کے ان تحفظات کو بے وقت کا مطالبہ کر دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں وقت کے ساتھ دور کر دیا جائے گا۔

سیاسی امور کے سینیئر تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ اس وقت معاملہ انتخابات کے التوا کا نہیں کیونکہ وہ تو کسی قدرتی آفت کی صورت میں بھی تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔

اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت ملک میں جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان کشمکش کا سا ماحول ہے جس میں سیاسی جماعتوں کو دوراندیشی سے فیصلہ کرنا ہوگا۔

"ہمارے ملک میں ایک مضبوط حلقہ ایسا ہے جو آئین کو انتخابات کو اور جمہور کی حکمرانی کو کھڑکی سے باہر پھینکنا پسند کرتا ہے خدشہ اور دھڑکے اس وجہ سے ہیں۔ ملک ایک بہت بڑے بحران میں ہے۔۔۔اس صورتحال میں کوتاہ نظری پر مبنی یا معمولی سیاسی فائدوں کے لیے ایسے مسئلے نہیں کھڑے کیے جانے چاہیئں۔"

گزشتہ جمعہ کو یہ مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جانا تھا لیکن اسے بھی موخر کیا جا چکا ہے۔