پاناما لیکس میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کا نام آنے کے معاملے پر جمعرات کو ایوان زیریں "قومی اسمبلی" میں خوب دھواں دھار بحث ہوئی اور حزب مخالف نے وزیراعظم اور حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
رواں ہفتے پاناما میں قائم ایک لا فرم "موسیک فونسیکا" کی ایک کروڑ سے زائد دستاویزات پر مبنی رپورٹس شائع ہوئی تھیں جن میں مختلف ملکوں کی بااثر شخصیات کے بظاہر محصولات سے بچنے کے لیے بیرون ملک قائم کمپنیوں اور بینک کھاتوں کے بارے میں معلومات افشا کی گئی تھیں۔ان میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کا نام بھی شامل تھا۔
وزیراعظم نے ان معلومات کی تحقیقات کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن حزب مخالف نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔
جمعرات کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کا جواب کمیشن نہیں ہے اور ایسی شفاف تحقیقات کروائی جائیں جس سے سب لوگ مطمیئن ہوں۔
انھوں نے کہا کہ وہ حزب مخالف کی طرف سے کمیشن کو مسترد کرتے ہیں اور ان کے بقول "آڈٹ کرنا ججز کا کام نہیں۔"
ان کے بقول وہ اس وقت نہ تو الزام تراشیوں کی طرف سے جانا چاہتے اور نہ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگتے ہیں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ بین الاقوامی آڈٹ کمپنیوں سے اس معاملے کی چھان بین کروائی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ "یہ پیسہ بیرون ملک کیسے گیا۔"
پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اس معاملے پر الگ الگ تحریک التوا جمع کروا رکھی ہیں۔
وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا کہا تھا جس کے بعد وزارت قانون نے اس ضمن میں سفارشات وزیراعظم کو بھجوائی تھیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ اور حکومت کے ایک بڑے ناقد عمران خان نے بھی قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کمیشن سے تحقیقات کے اعلان کو مسترد کیا تھا۔
"یہاں کا پیسہ چوری کر کے باہر جا رہا ہے یہاں کے لوگوں کو مقروض کیا جا رہا ہے سارے پاکستانیوں کا مطالبہ ہے کہ اس پر صحیح معنوں میں تحقیقات ہو اگر ایک ریٹائرڈ جج کو بٹھا کر کسی کا خیال ہے کہ کوئی دھوکے میں آجائے گا تو اس غلط فہمی میں کسی کو نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان آگے نکل گیا ہے۔"
حکومتی عہدیداروں نے حزب مخالف خاص طور پر تحریک انصاف کی طرف سے کی جانے والی تنقید کو ایک بار پھر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔