پاکستان میں ایک انتہائی اعلیٰ سطحی سکیورٹی اجلاس سے متعلق ڈان لیکس کا معاملہ اگرچہ حکومت اور فوج کے درمیان طے پا چکا ہے، لیکن اب بھی یہ معاملہ سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے۔
حزب مخالف کے دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق عوام اور پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے۔
حکومت کا موقف ہے یہ معاملہ اب متعلقہ اداروں کے درمیان خوش اسلوبی سے طے پا چکا ہے اور ڈان لیکس تحقیقاتی ٹیم کی سفارشات کے مطابق متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے اور اب اس معاملے پر مزید بحث کی ضرورت نہیں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما اعتزاز احسن نے حکومت کے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے ایوان بالا میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ حکومت اس معاملے کی تفصیلات پارلیمان کے سامنے لائے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ڈان لیکس کا معاملہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے ۔
جمعہ کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ " یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے اور ساری جماعتیں چاہتی ہیں کہ پارلیمان کے سامنے رکھا جائے کہ جو تحقیقاتی کمیشن جس حتمی نتیجہ پر پہنچا تھا وہ پارلیمان کے سامنے لایا جائے کیونکہ ساری قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے۔"
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا محمد افضل نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حزب مخالف کوئی بھی معاملہ پارلیمان میں اٹھا سکتی ہے اور حکومت اس کا مناسب جواب دے سکتی ہے تاہم ان کے بقول ڈان لیکس کا معاملہ اب متعلقہ اداروں کے درمیان طے پا چکا ہے۔
" یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے اوپر ضرورت سے زیادہ بحث ہو چکی ہے بہر حال ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی اور ایجنڈا نہیں جو تعمیر ی ایجنڈہ ہے وہ سمجتھے ہیں کہ ہماری جماعت کو کسی نا کسی طریقہ سے اس کی ساکھ کو خراب کیا جائے اور ان کے لیے شاید اچھا تاثر پیدا ہو جائے گا لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔"
سیاسی امور کے معروف تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے کہا کہ ایک سیاسی مصلحت کے تحت یہ معاملہ اٹھایا جا رہا ہے۔
"یہ صاف واضح ہے کہ یہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے اور وہ (حزب مخالف) سمجھتی ہے کہ اس سے کوئی موقع نکلے کہ حکومت کو پریشان کیا جا سکے لیکن یہ بہت خطرناک بات ہے اس سے ہماری مسلح افواج کے اندر بھی بے چینی پیدا ہو سکتی ہے تو حزب مخالف کی جماعتوں کو کچھ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ہمارے اداروں کے درمیان یہ بات طے پا چکی ہے تو اسے مان لینا چاہیے۔"
تاہم انہوں نے کہا کہ حزب مخالف یہ ضرور کہہ سکتی ہے کہ اس رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2016 میں اخبار ڈان میں خبر شائع ہوئی تھی کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں سیاسی قیادت نے عسکری قیادت پر زور دیا کہ ملک میں غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہے بصورت دیگر پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حکومت اور فوج دونوں ہی کی طرف سے اس خبر کی تردید کی گئی تھی تاہم اخبار ڈان کا اصرار تھا کہ اس نے حقائق کی جانچ کے بعد ہی یہ خبر شائع کی تھی۔
بعد ازاں حکومت نے اس معاملے کی تحققیات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس کی رپورٹ گزشتہ ماہ کے اواخر میں وزیر اعظم کو پیش کی گئی۔