بے نظیر قتل کیس کے ملزمان کی رہائی قابلِ افسوس ہے: قائدِ حزبِ اختلاف

قائد حزب اختلاف خورشید شاہ (فائل فوٹو)

واضح رہے پاکستان کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال پر اتوار کو پنجاب کے ضلعے نارووال میں عابد حسین نامی شخص نے اس وقت قاتلانہ حملہ کیا تھا جب وہ ایک جلسے میں شرکت کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔

قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے مقدمۂ قتل میں مبینہ طور پر ایک کالعدم شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والے پانچ ملزمان کی عدالت کے حکم پر ضمانت پر رہائی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے قابلِ افسوس اقدام قرار دیا ہے۔

جمعرات کو پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا، "یہ کھلا قتل تھا اور ساری چیزیں سامنے آ گئی تھیں۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنی بڑی رہنما کی شہادت ہو اور وہ لوگ پکڑے بھی جائیں۔ ان کو (مقدمہ) میں نامزد بھی کیا جائے۔ ان کا اس قتل سے تعلق بھی جوڑا گیا۔ (پھر) ان کو آپ چھوڑ دیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "بے نظیر کا قتل ایک ایسا واقعہ نہیں ہے کہ اس سے پہلو تہی کی جائے کہ شاید یہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں محبِ وطن پاکستانی رہنما جو قوم کے لیے جیتے ہیں اور اگر کوئی دہشت گرد ان کو قتل کردے ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔ "

انہوں نے کہا اس صورتِ حال میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ ملک کے وزیر داخلہ جیسی اہم شخصیت پر بھی کوئی حملہ کر دے۔

واضح رہے پاکستان کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال پر اتوار کو پنجاب کے ضلعے نارووال میں عابد حسین نامی شخص نے اس وقت قاتلانہ حملہ کیا تھا جب وہ ایک جلسے میں شرکت کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔

اپنے خطاب میں خورشید شاہ نے کہا کہ بے نظیر کے قتل کے مقدمے کے ملزمان کی رہائی کی پارلیمان کو مذمت کرنی چاہیے۔

"ہم اپنے اپنے حصار میں بندھے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے مائنڈ سیٹ سے بندھے ہوئے ہیں۔ اپنے ایجنڈے میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہم مل کر کوئی کام نہیں کرسکتے ہیں۔ اور ہم اکیلے اکیلے ہو کر مرتے جائیں گے اور کوئی ہم پر رونے والا نہیں ہوگا۔"

لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیر کو بے نظیر قتل کیس کے پانچ ملزمان کی درخواستِ ضمانت منظور کر لی اور ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے انہیں اس مقدمے کے حتمی فیصلے سے پہلے ہر سماعت پر اپنی حاضری کو یقنی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کے ایک عدالت نے گزشتہ سال ستمبر میں بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے پانچ ملزمان کو بری کرتے ہوئے دو پولیس افسران کو 17، 17 سال قید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

بری ہونے والے ملزمان میں رفاقت حسین، حسنین گل، عبدالرشید، اعتزاز شاہ اور شیر زمان شامل ہیں جنہیں عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد پنجاب حکومت نے اندیشۂ نقضِ امن کے تحت اڈیالہ جیل میں نظر بند کردیا تھا۔ جبکہ پولیس افسران کو بعد ازاں ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ بے نظر بھٹو کے شوہر سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی نے ہائی کورٹ میں اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کر رکھی ہے جس میں ماتحت عدالت کی طرف سے بری کیے جانے والے پانچوں ملزمان کو سزائے موت دینے کی استدعا کی گئی ہے۔