ملک کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ایسے وقت میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں جب اپوزیشن جماعتوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ہوا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف اندرونی اختلافات اور پارٹی رہنماؤں کی ناراضی کے سبب مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔
اتوار کو پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعظم عمران خان کے سابق ترجمان ندیم افضل چن نے حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کیا۔ وہ پیپلز پارٹی سے ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ دوسری جانب تحریک انصاف بلوچستان کے صدر اور وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی یار محمد رند نے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے۔
اسی طرح پنجاب میں تحریک انصاف کے اہم رہنما علیم خان بھی پی ٹی آئی کے جہانگیر خان ترین گروپ کے ساتھ مل گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے ناراض رہنماؤں کے اس گروپ کا اجلاس لاہور میں ہوا جس میں علیم خان نے بھی شرکت کی۔
اس اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں علیم خان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر تحریک انصاف کے مخلص کارکنان کو تشویش ہے۔ چار دن میں 40 ارکان صوبائی اسمبلی سے ملاقات کی ہے۔ ان ارکان نے پنجاب میں طرزِ حکمرانی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف میں جتنے بھی گروپ ہیں ان کو پارٹی کو بچانے کے لیےیکجا کرنا ہو گا کیوں کہ یہ کسی فردِ واحد کی جماعت نہیں ہے۔ آخری وقت تک کوشش ہے کہ تحریک انصاف کو مضبوط کیا جائے۔
علیم خان نے مزید کہا کہ انہوں نے وزیرِ اعلیٰ بننے کےلیے عمران خان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ انہوں نے ان کا ساتھ اس لیے دیا تھا کیوں کہ انہیں سیاست میں ایک نئی امید کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
SEE ALSO: عمران خان کا تحریکِ عدم اعتماد کے مقابلے کا اعلان، بلاول کا وزیرِ اعظم سے پھر مستعفی ہونے کا مطالبہبعض مبصرین کا خیال ہے کہ جہانگیر ترین کی قیادت میں تحریک انصاف کے ناراض رہنماؤں کا گروپ پہلے ہی تحریکِ عدم اعتماد میں حزب اختلاف کا ساتھ دینے کے اشارے دے چکا ہے۔
حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں قلیل اکثریت رکھتا ہے جب کہ اتحادی جماعتیں بھی حکومت سے ناراضی کا اظہار کر رہی ہیں۔
ایسے میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے گورنر سندھ عمران اسماعیل کو علیم خان اور جہانگیر ترین سے رابطہ کرکے ان کے تحفظات کو دور کرنے ہدایت کی ہے۔
اسی سیاسی گہما گہمی میں حزبِ اختلاف کی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں نے بھی پیر کو اسلام آباد میں اہم بیٹھک طے کی ہے ۔ شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان ہونے والی اس ملاقات کو حزبِ اختلاف کی حکمتِ عملی کے حوالے سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس ملاقات میں قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد لانے کے حوالے سے طریقۂ کار اور وقت کا تعین کیا جائے گا۔
SEE ALSO: 'جہانگیر ترین گروپ کے پاس اپوزیشن کا ساتھ دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں'خیال رہے کہ حزبِ اختلاف نے رواں ہفتے کے اختتام تک تحریکِ عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ہے۔
اتوار کو وہاڑی کی تحصیل میلسی میں جلسۂ عام سے خطاب میں حزبِ اختلاف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو جو ان کے ساتھ ہو گا، کیا وہ اِس کے لیے تیار ہیں؟
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں کراچی سے شروع ہونے والا عوامی مارچ راولپنڈی کے قریب پہنچا چکا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے مارچ کے شرکا سے خطاب میں عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئندہ 24 گھنٹوں میں وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں بصورت دیگر ان کو تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنا ہو گا۔
پیپلز پارٹی کا یہ عوامی مارچ پیر کی شب راولپنڈی پہنچے گا اور منگل کو اسلام آباد میں بلاول بھٹو زرداری حکومت مخالف تحریک کے اگلے مرحلے کی حکمتِ عملی کا اعلان کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اپنے اراکینِ اسمبلی کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان دنوں بیرون ملک سفر نہ کریں اور تحریکِ عدم اعتماد کے لیے اپنی دستیابی یقینی بنائیں۔
قبل ازیں حزبِ اختلاف کی قیادت نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی جس میں انہوں نے انہیں حکومت کی حمایت ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت تحریکِ انصاف قومی اسمبلی میں بڑی اکثریت نہیں رکھتی اور اگر اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے اتحادیوں کا ساتھ مل جائے تو وہ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت گرا سکتی ہیں۔