پاکستان میں حزبِ اختلاف کا مہنگائی کے خلاف احتجاج کا اعلان، حکومت کے لیے کتنا خطرہ؟

پاکستان میں حالیہ عرصے میں مہنگائی کی لہر اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ملک گیر احتجاج کا عندیہ دیا ہے۔

اس حوالے سے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا اہم اجلاس پیر کو اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے جب کہ کچھ عرصہ قبل پی ڈی ایم اتحاد سے الگ ہونے والی پاکستان پیپلزپارٹی بھی احتجاج کے لیے پرتول رہی ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے بعض رہنما احتجاجی تحریک کے دوران لانگ مارچ کرنے کا بھی عندیہ دے رہے ہیں۔

حکومت نے مہنگائی کو قابو میں لانے کے لیے متعدد اقدامات کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ حکومت کی مبینہ معاشی ناکامی عام لوگوں کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔

ادھر ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شکایات اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے پیشِ نظر وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اہم اجلاس طلب کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ حکومت اقدامات اور مہنگائی کی نئی لہر نے اپوزیشن جماعتوں کو عوام کو متحرک کرنے کا ایک سنہری موقع دیا ہے، لیکن حکومت کو صرف اسی صورت میں پریشانی ہو گی کہ اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہو کر احتجاج کریں۔

سیاسی تجزیہ نگار نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اس حکومت نے حالیہ دنوں میں ایسے اسباب فراہم کیے ہیں جس کی بنیاد پر احتجاجی تحریک کو ہوا مل سکتی ہے۔ البتہ اُن کے بقول عوام حزبِ اختلاف پر بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف نے اپنے رویے اور عمل سے عوام کو مایوس کیا ہے لہذا کسی بڑی تحریک کے لیے انہیں عوام کو یقین دلانا ہو گا کہ یہ ایک سنجیدہ تحریک ہے تب ہی عوام ساتھ دے گی۔

تجزیہ نگار سہیل وڑائچ بھی سمجھتے ہیں کہ مہنگائی میں حالیہ اضافے کی بنیاد پر حکومت مخالف تحریک چلائی جا سکتی ہے۔

اُن کے بقول حزبِ اختلاف کے لیے ماحول ساز گار ہے مگر اپوزیشن منظم نہیں ہے اس لیے دیکھنا ہو گا کہ عوام ان کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف پارٹی کارکنوں کو احتجاج کے لیے جمع کرنے سے زیادہ اثر نہیں پڑھے گا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عوام کے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے کہ حکومت میں کس کا کتنا حصہ ہے بلکہ عوام کا بنیادی مسئلہ مہنگائی ہے۔

اُن کے بقول اپوزیشن نے کتنی مرتبہ حکومت کو مجبور کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو پارلیمنٹ میں زیرِ بحث لایا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی اپنی ساکھ کا مسئلہ ہے کیونکہ وہ 'ووٹ کو عزت دو' کی بات کرتے ہیں اور 12 منٹ میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا قانون منظور کر دیتے ہیں۔

نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ حکومت مخالف تحریک بیان بازی اور عوام کو مصروف رکھنے کا ایک بہانہ ہے اور اس سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف اپنی تحریک سے حکومت کو دباؤ میں لا سکتی ہے تاہم لانگ مارچ سے حکومت کا گرنا دکھائی نہیں دیتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اداروں کے ساتھ مخاصمت یا دوری کی وجہ سے حکومتیں عدم استحکام کا شکار ہوتی ہیں اور اگر اس کے ساتھ عوامی ناراضگی بھی شامل ہو جائے تو حکومت پر مزید دباؤ پڑتا ہے اور حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کی جانب سے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا معاملہ اب بہت پیچھے جاچکا ہے، استعفے دینے کا مقصد حکومت کو گرانا تھا مگر اب حزبِ اختلاف سمجھتی ہے کہ حکومت اپنے ہی بوجھ سے گرے۔

خیال رہے کہ پی ڈی ایم نے اس سے قبل رواں برس مارچ میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا جو پارلیمنٹ سے استعفے دینے پر اتفاق رائے نہ ہو سکنے کے باعث ملتوی کر دیا گیا تھا۔

اس اختلاف کے بعد حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پی ڈی ایم سے علیحدہ ہوگئے تھے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھتو نے بھی حکومت مخالف عوامی جلسوں کا اعلان کررکھا ہے جس کا احتتامی جلسہ 30 نومبر کو خیبر پختونخوا میں رکھا گیا ہے۔

'حکومت مدت پوری کرے گی'

دوسری جانب حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرے گی۔

وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے پیر کو پریس کانفرنس کرتے پوئے کہا کہ حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ رواں سال مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ مہگائی کی لہر پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے حکومت نے کرونا وبا کا بہتر مقابلہ کیا اور قرضوں کی قسطیں بھی ادا کی گئیں اب مہنگائی بڑا چیلنج ہے۔

شیچ رشید کہتے ہیں کہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرے گی اور حزب اختلاف کے پاس کوئی متبادل پالیسی یا سوچ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عام انتخابات میں 21 ماہ رہ گئے ہیں اور حزبِ اختلاف جلسے جلوس کر کے انتخابات کی طرف جا رہی ہے۔