ملک بچانے کے لیے متفقہ لائحہ عمل پر یکجا ہونا ہو گا، اے پی سی اعلامیہ

پاکستان میں حکومت کے خلاف حکمتِ عملی طے کرنے کے لیے حزبِ اختلاف کی کل جماعتی کانفرنس کا اسلام آباد میں اجلاس ہوا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دھاندلی زدہ حکمرانوں کی نااہلیوں کی وجہ سے ملکی معیشت ڈگمکا رہ ہے اور غریبوں کے لیے زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے اور معاشی بدانتظامی سے ملک تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اعلامیے میں حکمرانوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے ملک کو آئی ایم ایف اور بیرونی مالیاتی اداورں کے حوالے کر دیا ہے جس سے معیشت دیوالیہ ہونے کو ہے۔

اعلامیے کے مطابق، غربت و افلاس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور صورت حال پرتشدد عوامی غیض و غضب کی جانب بڑھ رہی ہے جس سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔

اعلامیے میں حکمرانوں پر نااہلی، اناپرستی، انتقامی رویوں اور کرپشن کی سرپرستی کا الزام لگاتے ہوئے انہیں سیکورٹی رسک قرار دیا گیا ہے۔

اعلامیے میں متفقہ بیانیے اور لائحہ عمل پر یکجا ہونے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کر کے پاکستان کی ڈگمگاتی معیشت کو بچانے کا ہدف حاصل کرنا ہو گا۔

آل پارٹیز کانفرنس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں چاروں صوبوں میں عوامی رابطہ مہم شروع کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اے پی سی نے انکواری کمشن مسترد کر دیا ہے اور اسے پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 25 جولائی کو دھاندلی زدہ انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر یوم سیاہ منایا جائے گا۔

انہوں نے ایک رہبر کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم اس عوام دشمن، کاروبار دشمن بجٹ کو مسترد کرتے ہیں اور اس کے خلاف پارلیمںٹ کے اندر اور باہر احتجاج کیا جائے گا۔

اے پی سی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ اس جعلی حکومت کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جتنے دن یہ حکومت رہے گی پاکستان کی حالت دگرگوں رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت گرانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ حکومت خود ہی گرنے جا رہی ہے۔

مریم نواز نے بتایا کہ سرکاری اسپتالوں میں غریبوں کو مفت دواؤں کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔ دواؤں کی قیمتیں آسمان پر ہیں۔ لوگ علاج کرائیں، بچوں کی فیس دیں، بجلی اور گیس کے بل دیں یا کیا کریں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی میزبانی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت حزبِ اختلاف کی کئی اہم جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔

کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا وفد پارٹی کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی قیادت میں شریک ہوا جس میں مریم نواز بھی شامل ہیں۔

کانفرنس میں شریک پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی۔

کل جماعتی کانفرنس میں نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پاؤ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی بھی اپنی اپنی جماعتوں کے قائدین کے ہمراہ شریک ہوئے۔

حکومت کی ناراض اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) آل پارٹیز کانفرنس میں شریک نہیں ہوئی۔

کانفرنس کے آغاز سے عین قبل بی این پی کے ایک وفد نے پارٹی سربراہ اختر مینگل کی قیادت میں وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کی جس میں وزیرِ اعظم نے بی این پی کو اس کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

حزبِ اختلاف کی ایک اور اہم جماعت، جماعتِ اسلامی نے بھی اے پی سی میں شرکت نہیں کی۔

بجٹ کی منظوری اور اے پی سی کی اہمیت

حزبِ مخالف کی جماعتوں کی یہ بیٹھک ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔

اس سے قبل 2018ء میں انتخابات کے بعد بھی اپوزیشن جماعتوں نے کل جماعتی کانفرنس کی تھی۔ لیکن اُس کے بعد اپوزیشن اسمبلی میں اسپیکر، وزیرِ اعظم اور صدر کے انتخابات سمیت کسی بھی معاملے پر متحد نہیں ہو سکی تھی۔

حزبِ اختلاف کی چھوٹی جماعتوں کا اصرار ہے کہ اگر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں - مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی - سنجیدہ ہیں تو حکومت مخالف تحریک کا آغاز چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد سے کیا جائے جہاں ایوان میں اپوزیشن جماعتوں کو اکثریت حاصل ہے۔

حکومت کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی طے کرنے کے لیے اے پی سی بلانے کا فیصلہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی دعوت پر گزشتہ ماہ ہونے والے افطار ڈنر کے دوران سامنے آیا تھا۔

اس افطار ڈنر میں مریم نواز، حمزہ شہباز اور مولانا فضل الرحمان سمیت حزبِ اختلاف کے بیشتر اہم قائدین نے شرکت کی تھی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے خلاف کھل کر میدان میں آنا چاہتے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حکومت مخالف تحریک کے معاملے پر تذبذب کا شکار ہیں۔