امریکہ میں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی عمارت کیپٹل ہل پر گزشتہ برس چھ جنوری کو ہونے والے حملے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد یہ تصور کیا جا سکتا تھا کہ امریکہ میں سیاسی معاملات معمول پر آئیں گے۔
کیا یہ تصور بھی کیا جا سکتا تھا کہ چونکا دینے والے تشدد کے بعد امریکی حکومت از سرِ نو جائزہ لے گی کہ چھ جنوری کو کیا کچھ ہوا تھا۔
چھ جنوری کے حملے کے کئی ہفتوں اور مہینوں بعد بھی ملک میں جمہوریت سے متعلق عوامی اعتماد کو بحال کرنا مشکل ہوتا رہا ہے۔
عوامی رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ تقریباً دو تہائی امریکی سمجھتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت بحران کا شکار ہے اور اسے ناکامی کا خدشہ لاحق ہے۔ اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ایک تہائی امریکی کہتے ہیں کہ سیاسی تشدد بعض اوقات معقول جواب ہوتا ہے۔
عوامی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق امریکہ میں ری پبلکن ووٹرز کی اکثریت آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ 2020 کے صدارتی انتخابات کے نتائج دھاندلی پر مبنی ہیں اور صدر جو بائیڈن غیر قانونی طریقے سے منتخب ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: کیپٹل ہل پر چھ جنوری کے بلوے سے امریکیوں نے کیا سیکھا؟یونیورسٹی آف میساچوسٹس کی جانب سے کیے جانے والے تازہ ترین سروے کے مطابق ملک کی 33 فی صد آبادی میں سے 71 فی صد ری پبلکن سمجھتے ہیں کہ 2020 کے صدارتی انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ جنوری کو اپنے حامیوں سے خطاب کیا تھا جس کے بعد ان کے حامیوں نے ہجوم کی شکل میں کیپٹل ہل پر چڑھائی کر دی تھی۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہوا تھا جب کانگریس میں صدارتی انتخابات 2020 میں جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتخابات چوری کرنے کے مسلسل بے بنیاد دعووں کے بعد ری پبلکن پارٹی کے سینئر ارکان نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ اس سے قبل وہ ہجوم کی جانب سے کیپٹل ہل پر چڑھائی پر تنقید کرتے رہے تھے۔
'انتخابی نتائج سے مایوسی خطرناک ہے'
شکاگو یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر اور شکاگو سینٹر آن ڈیموکریسی کے ڈائریکٹر سوسان اسٹوکس کہتی ہیں ری پبلکن اکثریت رکھنے والی ریاستوں کے قانون ساز ارکان کی جانب سے سامنے آںے والا ردِ عمل غیر متوقع نہیں تھا۔
اسٹوک کہتی ہیں "یہ ایک خوفناک منظر ہے کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ انتخابی نتائج سے مایوس ہے اور اسے غیر قانونی سمجھتا ہے۔"
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر آپ الیکشن سے متعلق یہ یقین کر لیں گے صدارتی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو آپ اپنے حلقوں میں انتخابی قوانین کی تبدیلی کے حق میں بات کرنے لگتے ہیں۔
ایسی ریاستوں میں جہاں ری پبلکن جماعت اکثریت میں ہے وہاں گزشتہ برس ری پبلکن قانون سازوں نے نئے انتخابی قوانین متعارف کرانے کا بیڑا اٹھالیا تھا۔
واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک برینن سینٹر فار جسٹس کے مطابق ری پبلکن پارٹی کی 19 اکثریتی ریاستوں نے گزشتہ برس 33 قوانین منظور کیے جس کے تحت بیلٹ تک رسائی کو سخت کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
دیگر ایسی ریاستوں میں بھی قوانین منظور ہوئے جس کے تحت الیکشن انتظامیہ کو سیکرٹری آف اسٹیٹ سے دور رکھا گیا یا مقامی الیکشن حکام کو قانون سازوں کے ماتحت کیا گیا۔ ایسا ری پبلکن اکثریتی ریاستوں جارجیا اور ایریزونا میں بھی ہوا جہاں 2020 کے انتخابات کے دوران صدر جو بائیڈن کو ووٹ پڑے تھے۔
مذکورہ دونوں ریاستوں میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن میں دھاندلی کے بے بنیاد دعووں کے باوجود ری پبلکن الیکشن حکام نے الیکشن نتائج کے درست ہونے کی ضمانت دی تھی۔
تمام ریاستوں کی سطح پر ووٹنگ سے متعلق قوانین میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ البتہ جہاں ڈیمو کریٹک پارٹی اکثریت میں ہے وہاں نئے قوانین منظور کرائے گئے جس کے تحت بیلٹ تک رسائی کو آسان بنایا گیا ہے۔
ریاستی سطح پر ووٹنگ کو آسان بنانے کے لیے قوانین میں جو تبدیلیاں کی گئیں اس کے تحت ووٹرز کو الیکشن کے دن سے پہلے ووٹ ڈالنے کا موقع دینا، میل ان ووٹنگ کے لیے رسائی دینا، ووٹرز کے لیے رجسٹریشن قواعد کو آسان بنانا اور ان لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا جن کی بنیادی زبان انگلش نہیں ہے، شامل ہیں۔
ڈیموکریٹک ووٹرز نے مذکورہ تبدیلوں کی حمایت کی ہے تاہم نمایاں ری پبلکن ووٹرز اس کے مخالف ہیں۔