وائس آف امریکہ کے سروے میں جہاں پاکستان کے 70 فی صد نوجوانوں نے آئندہ انتخابات میں ووٹ دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، وہیں 17 فی صد نوجوانوں نے کہا ہے کہ وہ کبھی ووٹ نہیں ڈالیں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک میں پانچ کروڑ 68 لاکھ سے زائد ووٹرز کی عمر 18 سے 35 برس کے درمیان ہے۔
ماہرین کے نزدیک ایک ایسے ملک میں جہاں نوجوان ووٹرز کی تعداد لگ بھگ 44 فی صد ہے، وہاں بڑی تعداد میں ووٹ نہ دینے کا رجحان ملک کے سیاسی اور انتخابی نظام پر کئی سوال اٹھاتا ہے۔
ووٹ نہ دینے کا رجحان
پاکستان میں ووٹ دینے والوں کا ان کی عمر کے حساب سے کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاتا۔ کسی خاص عمر کے افراد میں ووٹ کا رجحان جاننے کے لیے ایگزٹ پولز یعنی ووٹ دے کے باہر آنے والے افراد کے سروے پر انحصار کیا جاتا ہے۔
ایگزٹ پولز پر مبنی مختلف رپورٹس کے مطابق پاکستانی نوجوانوں میں ووٹ دینے کا رجحان پہلے ہی بہت کم ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے مطابق 1988 سے 2018 کے درمیان ہونے والے آٹھ قومی انتخابات میں نوجوانوں میں ووٹ دینے کی شرح 31 فی صد رہی۔ ان آٹھ انتخابات میں اوسط ٹرن آؤٹ تقریباً 44 فی صد تھا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں ہونے والے انتخابات میں نوجوانوں کا سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ 2018 میں دیکھا گیا جس کا اندازہ 37 فی صد لگایا گیا تھا۔
انسانی حقوق کمیشن سے وابستہ قاضی خضر حبیب ماضی میں متعدد انتخابات کا بطور مبصر جائزہ لے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے گزشتہ آٹھ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ٹرن آؤٹ 50 فی صد تک ہی گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان سبھی انتخابات میں نوجوانوں کے ووٹ ڈالنے کی شرح بہت کم رہی اور اس لیے ممکن ہے کہ کبھی بھی ووٹ نہ دینے کی سوچ کے حامل پاکستانی نوجوان 17 فی سے بھی کہیں زیادہ ہوں۔
Your browser doesn’t support HTML5
قاضی خضر حبیب کے بقول ہمارے سیاسی نظام نے کبھی ایسی غیر معمولی کارکردگی نہیں دکھائی جس کی بنیاد پر نوجوانوں سے الیکشن میں گرم جوشی کے ساتھ شریک ہونے کی توقع کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ نہ نوجوانوں کے پاس کھیل کے میدان ہیں، نہ انہیں تعلیم مل رہی ہے اور نہ ہی صحت کی سہولتیں دست یاب ہیں۔ ایسے حالات میں وہ جمہوریت یا سیاسی نظام سے کوئی وابستگی محسوس نہیں کرتے اور ان کا یہ احساس سیاسی و انتخابی نظام پر بھی کئی سوال اٹھاتا ہے۔
'ووٹ نہ دینا بھی ایک رائے ہے'
یوتھ انفلوئنسر اور سیاسی مبصر سید مزمل شاہ کا کہنا ہے کہ دنیا کی کئی جمہوریتوں میں ووٹ نہ دینے کو بھی ایک سیاسی رائے تصور کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی رائے کو باقاعدہ ریکارڈ پر لانے کے لیے بعض جمہوری ممالک میں بیلٹ پیپرز پر ’نوٹا‘ (NOTA) یعنی ’ان میں سے کوئی نہیں‘ کا آپشن بھی دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'نوٹا' کا آپشن دینے سے ایسے رائے دہندگان کی رائے بھی باضابطہ طور پر ریکارڈ ہو جاتی ہے جو انتخاب میں شامل تمام ہی سیاسی جماعتوں یا امیدواروں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔
سید مزمل کے بقول پاکستان میں بھی نوجوانوں کی الیکشن میں عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے رائے دہندگان کو ایسا کوئی آپشن ملنا چاہیے۔
نوجوانوں کی سیاست سے دوری
وائس آف امریکہ کے سروے میں لگ بھگ 54 فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ سیاست اور اپنے حلقے کے انتخابی امیدواروں کے بارے میں جاننے میں دلچسپی لیتے ہیں۔
اسی طرح صرف 29 فی صد نوجوان کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی سپورٹ کرتے ہیں اور ان کی سرگرمیوں اور جلسے جلوسوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔
قاضی خضر حبیب کے نزدیک نوجوانوں کی سیاسی نظام سے اس عدم دلچسپی کی ذمے داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں میں ہمیشہ یوتھ افیئرز کی وزارت غیر مؤثر ترین وزارتوں میں شامل رہی ہے اور اسی سے سیاسی حکومتوں کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سیاسی سرگرمیوں میں نوجوانوں کی شمولیت سے متعلق مزمل شاہ کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں پہنچنے والوں کی اوسط عمر 50 سال سے زائد ہے جو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں نوجوان کہاں ہیں۔
ان کے مطابق طلبہ سیاست کی بحالی اور پارٹی سیاست میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی سے سیاسی سرگرمیوں میں نوجوانوں کی شمولیت بڑھائی جا سکتی ہے۔
سیاسی مباحثے اور وی لاگز میں دلچسپی
وائس آف امریکہ کے سروے میں یہ معلومات بھی سامنے آئی ہیں کہ نوجوان سیاسی معلومات کے لیے کن ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔
سروے کے مطابق 29 فی صد نوجوان ٹیلی وژن پر سیاسی ٹاک شوز دیکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سیاسی بحث کرنے والے اور یوٹیوب پر سیاسی پوڈ کاسٹ اور وی لاگ دیکھنے والے نوجوانوں کی شرح 26، 26 فی صد ہے۔
عام طور پر اخبارات میں شائع ہونے والے کالمز کو رائے سازی کے لیے اہم تصور کیا جاتا ہے لیکن صرف 19 فی صد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ اخباری کالم پڑھتے ہیں۔