سعودی تیل کی پیداوار میں کمی کی افواہ، نرخ میں اضافہ

اس ہفتے جو افواہ دنیا بھر کی تیل کی منڈی میں گردش کرتی رہی تھی وہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور اُسی خطے کے دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک اور روس کے درمیان اس سلسلے میں ایک معاہدہ طے ہوگیا ہے

توانائی کی منڈی پر نگاہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ تیل کے نرخ میں اضافہ اِن افواہوں کے بعد آیا ہے کہ ممکنہ طور پر سعودی عرب، تیل پیدا کرنے والے دیگر اوپیک ارکان اور روس تیل کی پیداوار میں کمی لائیں گے۔

اِس کے نتیجے میں، تیل کی اوسط قیمت بڑھ کر 31 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے، جب کہ حالیہ دِنوں تک یہ 30 ڈالر فی بیرل سے کم تھی۔

اس ہفتے جو افواہ دنیا بھر کی تیل کی منڈی میں گردش کرتی رہی تھی وہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور اُسی خطے کے دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک اور روس کے درمیان اس سلسلے میں ایک معاہدہ طے ہوگیا ہے۔

سعودی عرب پیش پیش ہوگا، چونکہ ریگستان کی سرزمین والے اس ملک کے پاس تیل کا بڑا ذخیرہ ہے، حالانکہ وہ پیداوار میں اضافے یا کمی کا مجاز ہے جو یکطرفہ اقدام عالمی منڈی پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں رائس یونیوسٹی کے 'جیمز بیکر انسٹی ٹیوٹ فور پالیسی اسٹڈیز' سے تعلق رکھنے والے خطے کے تجزیہ کار، جِم کرین نے بتایا ہے کہ سعودی عرب کو اس بات کی ضرورت پڑے گی کہ اوپیک کے ملکوں سے باہر والے تیل پیدا کرنے والے کچھ بڑے ملک اس کے ساتھ تعاون کریں۔ پھر سعودیہ کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نجی تیل کی کمپنیاں بھی کچھ کمی لائیں۔

کرین کے الفاظ میں ''جب وہ پیداوار اور سرمایہ کاری میں زیادہ کمی کی بات کا سوچے گا، اور روسی اور کچھ دیگر ممالک ایسا کرنے میں ہمخیال ہوں گے، تو میرے خیال میں وہ پیداوار میں کمی کر دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو شاید یہ پیداوار میں معمولی کمی ہوگی، اور میں نہیں سمجھتا کہ پیداوار میں بہت زیادہ کمی ہوگی''۔

کرین کے خیال میں سعودی عرب بین الاقوامی خام مال کی قیمتیں مستحکم رہنے میں اس لیے بھی دلچسپی لیگا، چونکہ ایسا کرنے سے اُس کی داخلی ضروریات پر بھی اثر پڑے گا۔