پاکستان میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ملک میں گیس کی قیمتیں 74 فی صد تک بڑھانے کی سفارش کر دی ہے جس کے بعد مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اوگر ا نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ گزشتہ برس یکم جولائی سے لاگو کر نے کی تجویز دی ہے جس کی اگر حکومت نے منظوری دے دی تو یہ بوجھ بھی عوام پر منتقل کیا جائے گا۔
اوگرا نے سوئی ناردرن کے لیے گیس 74.42 فی صد جب کہ سوئی سدرن کے لیے 67.75 فی صد مہنگی کرنے کی منظوری دی ہے۔
تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک عرصہ سے گیس جس قیمت پر دی جارہی ہے اس کی وجہ سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے اور حکومت کے لیے قیمتوں میں یہ اضافہ ناگزیر ہے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ گیس کے گردشی قرضے 16سو ارب تک پہنچ چکے ہیں لیکن حکومت کوشش کرے گی کہ عوام پر بوجھ نہ ڈالا جائے اور حکومت اپنے وسائل سے اس کا حل نکالے۔
اوگرا کے فیصلے پر عمل درآمد وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد ہو گا اور اگر 40 روز میں حکومت نے منظوری نہ دی تو اوگرا کا فیصلہ پھر بھی لاگو ہو جائے گا۔
پاکستان کے وزیرِ خزانہ نے منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران جس طرح بجلی کا گردشی قرضہ تیزی سے بڑھا ہے گیس کا گردشی قرضہ اس کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھا ہے اور یہ اب 1600 ارب روپے ہو گیا ہے۔
'گیس کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہے'
سوئی سدرن گیس کمپنی کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر زہیر صدیقی کہتے ہیں کہ اوگرا کی طرف سے جو احکامات سامنے آئے ہیں وہ ابھی حتمی نہیں ہیں اس بارے میں حکومت کو فیصلہ کرنا ہے اور اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ گھریلو صارفین کے لیےقیمت میں اضافہ ناگزیر ہے اس وقت موجودہ قیمت بہت کم ہے اور اسے ہر حال میں بڑھانا ہوگا۔
زہیر صدیقی کا کہنا تھا کہ اوگرا کی سفارش پر حکومت میں مشاورت کے بعد سوئی سدرن کی گیس کی قیمت میں 50 سے 57 فی صد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ صارفین کو اس وقت گیس جس قیمت پر دی جارہی ہے وہ قیمت خرید سے بھی کم ہے، پاکستان میں ستمبر 2020 میں آخری مرتبہ گیس کی قیمت بڑھائی گئی تھی اور دو سال سے زائد عرصہ میں قیمت نہیں بڑھائی گئی۔
زہیر صدیقی کے بقول پاکستان کا گیس سیکٹر میں گردشی قرضہ 16سو ارب تک پہنچ چکا ہے اور اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے اور گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے گیس کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے عام صارفین متاثر تو ہوں گے لیکن ایسا کرنا حکومت کی مجبوری ہے۔ یہ اضافہ صرف گھریلو صارفین کے لیے نہیں بلکہ کمرشل صارفین کے لیے بھی ہو گا۔
صارفین کے بلوں میں کتنا اضافہ ہو گا؟
تجزیہ کار اور شرمین سیکیورٹی سے منسلک فرحان محمود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سب سے سستی گیس گھریلو صارفین کو دی جاتی ہے جو سب سے کم سلیب والے صارفین کوتقریباً 0.50 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو دی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 80 فی صد صارفین سسب سے کم سلیب والے ہیں، اگر اس کے بعد کی سیلب کو بھی شمار کیا جائے تو اوسطاً 2 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہوتی ہے۔ اس میں لوئر کلاس، مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے لوگ شامل ہیں۔
اُن کے بقول اس صورتِ حال کی وجہ سے گیس کمپنیاں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں کیوں کہ حکومت کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ سبسڈی دی جائے گی لیکن حقیقت میں نہ دیے جانے کی وجہ سے اس وقت گردشی قرضے بڑھ گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
فرحان محمود کا کہنا تھا کہ اوگرا ڈومیسٹک کے ریٹس کو بڑھا رہا ہے۔ اس میں 120 ایم ایم بی ٹی یو کی کیٹگری دیکھیں تو اس کیٹگری کے لیے موجودہ قیمت 0.50 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھا کر 4 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو کی جارہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ قیمت پاکستان میں پیدا ہونے والی گیس کی موجودہ قیمت سے بھی کم ہے کیوں کہ ابھی اس گیس کی قیمت تقریباً ساڑھے چار ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔
فرحان محمود کا کہنا تھا کہ اوگرا کی سوچ یہ ہے کہ اس وقت گھریلو صارفین کو سب سے سستی گیس فراہم کی جارہی ہے جو اوسطاً 2 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ اس وقت گیس کے علاوہ دیگر ذرائع یعنی لکڑی، کیروسین اور دیگر ذرائع سے توانائی حاصل کررہے ہیں جو انہیں 6 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے حاصل ہوتی ہے۔
اُن کے بقول اس طرح دیکھا جائے تو گیس بہت زیادہ سستی دی جارہی ہے، کم قیمت کی وجہ سے اس کا ضیاع بھی ہوتا ہے اور اوگرا کی سوچ ہے کہ اس کی قیمت بڑھا کر اس کے ضیاع کو بھی روکا جائے۔
عام صارفین کے بلوں میں فرق کے بارے میں فرحان محمود نے کہا کہ موجودہ اضافہ کی وجہ سے چھوٹے صارفین کے بلوں میں اضافہ آٹھ سے نو گنا تک ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت گیس کی اصل قیمت سے کم پر صرف فرٹیلائزر سیکٹر اور گھریلو صارفین کو اس کی قیمت خرید سے کم پر گیس دی جارہی ہے۔
اس وقت ایل این جی پاکستان میں تقریباً ساڑھے 12 ڈالر پر مل رہی ہے، یہ اگرچہ مخصوص پاور سیکٹر کو دی جارہی ہے لیکن بعض جگہ شارٹیج پر گھریلو صارفین کو بھی دی جارہی ہے، اب ساڑھے 12 ڈالر میں خرید کر 2 ڈالر کی اوسط قیمت میں دی جائے گی تو گردشی قرضہ ہی بڑھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کرنسی کی قیمت میں گراوٹ اور عالمی سطح پرگیس کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے پاکستان کے سالانہ گردشی قرضہ میں 400 ارب روپے کا اضافہ ہورہا ہے، ایسی صورتِ حال میں پاکستان کو ہر حال میں گیس کی قیمت کو بڑھانا ہوگا۔