عراقی وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ، مصطفیٰ الکاظمی محفوظ رہے

فائل فوٹو

عراق کے حکام نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم مصطفیٰ الکاظمی پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی ہے جس میں وہ محفوظ رہے ہیں۔ ان کی رہائش گاہ کو اتوار کی صبح مسلح ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق دو عراقی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بغداد کے انتہائی قلعہ بند گرین زون میں دو دھماکہ خیز ڈرونز سے حملہ کیا گیا جس میں الکاظمی کے سات سیکیورٹی گارڈز زخمی ہو گئے۔

حملے کے بعد وزیرِاعظم نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'خدا کا شکر ہے کہ میں اور میرے ساتھی ٹھیک ہیں۔' انہوں نے لوگوں سے عراق کی خاطر پرسکون رہنے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔

بعد ازاں وہ عراقی ٹیلی وژن پر آئے اور بظاہر پرسکون انداز میں کہا کہ 'بزدلانہ راکٹ اور ڈرون حملے وطن اور مستقبل کی تعمیر نہیں کرتے۔'

وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ پر حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی۔ البتہ یہ حملہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب سیکیورٹی فورسز اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے درمیان جھڑپ جاری ہے، جن کے حمایت یافتہ افراد لگ بھگ ایک ماہ سے گرین زون کے باہر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کی جانب سے عراق کے پارلیمانی نتائج کو مسترد کیا گیا ہے جس میں وہ اپنی دو تہائی نشستیں کھو چکے ہیں۔

یہ مظاہرے جمعے کو اس وقت شدت اختیار کر گئے تھے جب مظاہرین نے گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ جس پر سیکیورٹی فورسز نے آنسو گیس اور ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔ اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں ایک شخص ہلاک ہوا تھا جس کا تعلق ملیشیا سے بتایا گیا تھا۔ اس جھڑپ کے دوران درجنوں سیکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔

حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دھماکہ خیز مواد سے بھرے ڈرون سے الکاظمی کے گھر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ گرین زون کی سمت سے شدید فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں، جہاں مختلف غیر ملکی سفارت خانے اور حکومتی دفاتر موجود ہیں۔

عراق کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے واکےبیان میں کہا گیا کہ سیکیورٹی فورسز اس ناکام حملے کے تناظر میں ضروری اقدامات کر رہی ہیں۔

SEE ALSO: عراق کے پارلیمانی انتخابات، مقتدی الصدر کی جماعت نے سب سے زیادہ نشستیں جیت لیں

چون سالہ الکاظمی عراق کی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ بھی رہے ہیں وہ گزشتہ برس مئی میں ملک کے وزیرِاعظم بنے تھے۔ انہیں ملیشیا کی جانب سے امریکہ کا قریبی سمجھا جاتا ہے اور انہوں نے امریکہ اور ایران کے ساتھ عراقی اتحاد میں توازن کی کوشش کی ہے۔

امریکہ کی حملے کی مذمت

دوسری جانب امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ 'بظاہر دہشت گردی کی یہ کارروائی عراقی ریاست کے مرکز میں کی گئی جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم عراق کی سالمیت اور آزادی کو برقرار رکھنے والی عراقی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور اس حملے کی تحقیقات کے لیے ہم نے انہیں اپنی معاونت کی پیش کش کی ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی ایک بیان میں عراقی وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ پر حملے کی مذمت کی ہے۔

دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان عراقی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا ہے۔