چندماہ قبل امریکہ کے مالیاتی مرکز نیویارک سے شروع ہونے والی تحریک آکوپائی وال سٹریٹ، یعنی وال سٹریٹ پر قبضہ کرلو نامی تحریک کا دائرہ امریکہ کے بہت سے چھوٹے بڑے شہروں سمیت دنیا کے کئی ملکوں تک پھیل چکاہے۔ اس تحریک سے وابستہ افراد امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور ان کا کہناہے کہ اس کی ذمہ داری بڑے مالیاتی اداروں اور حکومتی پالیسوں پر عائد ہوتی ہے۔ ماہرین یہ سوچ رہے ہیں امیر اور غریب کے درمیان فرق کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟ مگر اس بارے میں پائے جانے والے نظریات کے درمیان موجود فاصلے بڑھ رہے ہیں۔
مظاہرین کا کہناہے کہ مشکلات میں گھرے بینکوں کوٹیکس دہندگان کے پیسے سے بچالیا جاتا ہے مگر ان غریب لوگوں کے گھروں پر جو مالی مشکلات کے باعث اپنی ماہانہ قسطیں ادا نہیں کر سکتے ، بینک قبضہ کر لیتے ہیں۔
تحریک کے سرگرم اراکین معاشی بحران کے لئے بینکوں اور وال سٹریٹ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک کے ایک فی صد امیر 99 فی صد آبادی کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر سب سے زیادہ دولت کماتے ہیں اور اپنے سیاسی اثر ورسوخ کے ذریعے امیروں پر ٹیکس نہیں لگنے دیتے ۔
قبضہ کرو تحریک ایک منصفانہ معاشرے کی خواہشمند ہے جس میں امیر زیادہ ٹیکس ادا کریں اور کاروباروں کے لئے قواعد وضوابط بھی زیادہ ہوں۔
لیکن امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے پیٹر ویلی سن کہتے ہیں کہ کم ٹیکس اور قواعد و ضوابط معیشت کے لئے نقصان دہ ہیں۔ ان کا کہناہے کہ حکومت کو نئے کاروبار شروع کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنی چاہیں، کیونکہ اپیل کمپنی کے اسٹیو جانز سمیت ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ غریب ہی سخت محنت کرکے امیر بننے میں کامیاب ہوئے۔
لوگوں کے راستے میں نہیں آنا چاہیے۔
مگر واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایک اسکالر جان کیواناگ کا خیال ہے کہ جب ملک میں بےروزگاری کی سطح اتنی بلند ہوتو غریب سے امیر بننے کے قصے خواب لگتے ہیں۔
امریکی کانگرس کے بجٹ آفس کے اعدادوشمار کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں آبادی کے ایک فی صد کی آمدن میں 275 فی صد اضافہ ہوا ہے مگرانتہائی غربت میں زندگی گذارنے والی20صد آبادی کی آمدنی صرف 18 فی صد بڑھی ہے۔
آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق معاشرے کے دس فی صد امیروں کی آمدنی غریب آبادی کی کل آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہے۔
مظاہرین کہتے ہیں کہ وہ بے روزگاری جیسے مسائل حل ہونے تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔