امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر بندش کا مطالبہ کرنے پر، امریکی صدر براک اوباما نے منگل کے روز ری پبلیکن پارٹی کے متوقع صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی شدید مذمت کی ہے۔
اوباما، جنھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹرمپ کی حریف، سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی نامزدگی کی حمایت کی ہے، کہا ہے کہ ٹرمپ کی تجویز نسلی، گروہی اور مذہبی رواداری کے امریکی ورثے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، اور ’’یہ وہ امریکہ نہیں جس کے ہم حامی ہیں‘‘۔
ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں داعش کے دہشت گردوں کو شکست دینے کی اوباما کی کوششیں کمزور ہیں۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ امریکہ کو داعش کے لڑاکوں کے خلاف مزید سخت اقدام کرنا ہوگا، جب کہ بیرونی ملکوں میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کو امریکہ سے دور رکھنا چاہیئے، تاکہ مزید ممکنہ دہشت گرد حملوں سے بچا جا سکے۔
ٹرمپ کسی زمانے میں ٹیلی ویژن ریلٹی شو کے میزبان ہوا کرتے تھے۔ اُنھوٕں نے پیر کے روز کہا کہ ممکنہ طور پر اوباما کی پالیسیوں کی وجہ ہی سے اتوار کے روز فلوریڈا کے شہر اورلینڈو کے گے نائٹ کلب پر حملہ ہوا، جس میں 49 افراد ہلاک جب کہ 53 زخمی ہوئے۔
یہ حملہ امریکہ میں پیدا ہونے والے ایک مسلمان نے کیا، جن کے بارے میں امریکی حکام کا خیال ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر جہادی پروپیگنڈا سے متاثر ہوا۔
اوباما کے اس خطاب سے قبل صدر نے اپنے کلیدی انٹیلی جنس اور دفاعی مشیروں سے اجلاس کیا جس دوران وسیع تر قومی سلامتی کا جائزہ لیا گیا۔
صدر نے توجہ دلائی کہ اورلینڈو حملہ آور، عمر صدیق متین امریکی شہری تھا۔
دسمبر میں کیلی فورنیا کے شہر، سان برنارڈینو، میں مہلک قتل عام کرنے والا اور سنہ 2009 میں فوجی اڈے پر حملہ آور فوجی سائکیاٹرسٹ، بھی امریکی شہری ہی تھا۔
ٹرمپ کی مسلمان مخالف گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے، اوباما نے سوال کیا ’’یہ سلسلہ کہاں تھمے گا؟ کیا ہم تمام امریکی مسلمانوں کے ساتھ مختلف انداز سے پیش آئیں گے؟ کیا ہم اُنھیں خصوصی نگرانی کے عمل سے گزاریں گے؟ کیا ہم مذہب کی بنیاد پر اُن سے امتیاز برتنا شروع کریں؟‘‘
اوباما نے کہا کہ خاص دھیان مبذول کرانے کے لیے مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنا آزادی اور قانون کی حکمرانی کے ضابطوں کی مدتوں سے جاری روایت کی خلاف ورزی ہوگا۔ بقول اُن کے،’’یہی تو وہ چیزیں ہیں جو ہمیں غیر معمولی بناتی ہیں‘‘۔
ٹرمپ نے فوری طور پر اوباما کے بیان پر رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
تاہم، اِس سے قبل، آج ہی کے دِن اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کو سختی برتنی ہوگی۔، ہمیں بہت ہی چوکنہ رہنا ہوگا۔ غیر معمولی اسکریننگ کے بغیر ہم افراد کو ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔