امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ اور دیگر عالمی رہنما متحد ہوکر شدت پسند تنظیم داعش سے لاحق خطرات کا مقابلہ کریں گے جو، ان کےبقول، پیرس حملوں کی ذمہ دار ہے۔
پیر کو ترکی کے شہر انطالیا میں جاری 'جی-20' ممالک کے سربراہی اجلاس کے دوسرے روزصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ تنظیم کے رکن ممالک نے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے سدِ باب کے لیے سرحدوں کی نگرانی سخت کرنے، انٹیلی جنس کے تبادلے اور داعش کو تباہ کرنے کی اپنی کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اس سے قبل اجلاس میں شریک برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک آئندہ سال کے آغاز میں ایک 'ڈونر کانفرنس' منعقد کرے گا جس کا مقصد شام سے یورپ آنے والے مہاجرین کے مسئلے سے نبٹنے کے لیے نئے وسائل اکٹھے کرنا ہوگا۔
وزیرِاعظم کیمرون کا کہنا تھا کہ یورپ کی جانب سے مہاجرین کو قبول کرنے سے متعلق تمام اقدامات عارضی نوعیت کے ہیں اور یہ مسئلہ اس وقت تک پوری طرح حل نہیں ہوسکتا جب تک شام میں جاری خانہ جنگی کا کوئی سیاسی حل تلاش نہیں کرلیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ شام میں قیامِ امن اور مختلف ملکوں میں مقیم لاکھوں شامی پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی ہی مسئلے کا درست اور دیرپا حل ہے۔
پیر کو سربراہی اجلاس کے دوسرے روز بھی انطالیا میں موجود دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے سربراہان کے درمیان دو طرفہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا جن میں ہونے والی گفتگو میں پیرس حملوں کے بعد پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات سرِ فہرست رہے۔
پیر کو صدر اوباما نے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون، جرمن چانسلر اینگلا مرخیل، اطالوی وزیرِ اعظم میٹیو رینزی اور فرانس کے وزیرِ خارجہ لوغاں فیبیوس سے ملاقاتیں کیں۔
'جی-20' اجلاس میں فرانس کی نمائندگی صدر فرانسس اولاں کو کرنا تھی لیکن انہوں نے جمعے کو پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی بعد ترکی کا دورہ منسوخ کردیا تھا۔
امریکی صدر نے اتوار کو اجلاس کےمیزبان اور ترک ہم منصب رجب طیب ایردوان کے ساتھ ملاقات کے بعد داعش کےخلاف عالمی اتحاد کی کوششیں دگنی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک پیرس حملوں کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے فرانس کی حکومت سے ہر ممکن تعاون کرے گا۔