شاہ سلمان، اوباما ملاقات میں ایران پر یقین دہانی کا معاملہ متوقع

فائل

صدر اوباما اور سعودی بادشاہ کے ساتھ مذاکرات کا وقت اس سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتا کہ امریکی قیادت میں اتحاد عراق اور شام میں داعش کے خلاف نبردآزما ہے، جب کہ سعودی قیادت والا اتحاد یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو پسپائی کہ راہ دکھا رہا ہے

عراق، یمن اور شام میں لڑائی اور مشرق ِوسطیٰ میں ایران کے رویے پر تشویش کے تناظر میں، جمعے کے روز وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر براک اوباما اور سعودی بادشاہ سلمان کی ملاقات ہوگی۔ شاہ عبداللہ کی رحلت اور جنوری میں تخت سنبھالنے کے بعد، عرب رہنما کا یہ امریکہ کا پہلا دورہ ہے۔

صدر اوباما اور سعودی بادشاہ کے ساتھ مذاکرات کا وقت اس سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتا کہ امریکی قیادت میں اتحاد عراق اور شام میں داعش کے خلاف نبردآزما ہے، جب کہ سعودی قیادت والا اتحاد یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو پسپائی کہ راہ دکھا رہا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے معاون مشیر، بن رہوڈز کے الفاظ میں، ’یہ اہم وقت ہے، جس دوران یہ بہت ہی اہم دورہ ہے، جب کہ خطے میں متعدد معاملات درپیش ہیں جہاں ہمارے سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں۔ حالیہ دِنوں کے دوران، ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتا طے ہونا اور پھر کیمپ ڈیوڈ میں سربراہ اجلاس ہونا، جس میں سعودی عرب اور خلیج کے دیگر پارٹنر شریک ہوئے تھے۔‘

چودھ مئی کے بعد، جمعے کے روز وائٹ ہاؤس میں ہونے والا یہ پہلا اجلاس ہے جس میں صدر اوباما خلیج تعاون تنظیم کے رہنماؤں کے ساتھ وقت گزاریں گے، جس میں ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کے حوالے سے تشویش کے خلاف یقین دہانی شامل ہوگی۔

اینتھونی کارڈزمن ’سیٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ میں سکیورٹی تجزیہ کار ہیں۔ بقول اُن کے، ’خلیج کے زیادہ تر لوگ، بلکہ یوں کہئیے کہ ساری عرب دنیا خلیج کے بارے میں، ایران نیوکلیئر سمجھوتے کے بارے میں، اور داعش، عراق اور یمن میں ایران کے پختہ اثر و رسوخ کے سلسلے میں امریکی مؤقف پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں‘۔

کارڈزمن نے کہا ہے کہ مکالمے کے دوران سعودی عرب کی اعتماد سازی کا معاملہ اہمیت کا حامل ہوگا، خاص طور پر مذاکرات کے ذریعے حال ہی میں طے ہونے والا جوہری سمجھوتا۔

اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں ٹھوس یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ امریکہ اس پر عمل درآمد کرے گا، وہ کسی خلاف ورزی کو نظرانداز نہیں کرے گا، وہ اس معاملے پر سخت مؤقف اختیار کرے گا۔

رہوڈز نے ایران کے بارے میں سعودی تشویش کو جائز قرار دیا، جس کو تعزیرات میں نرمی کےضمن میں 56 ارب ڈالر ہاتھ لگیں گے، جب کہ اُنھوں نے توجہ دلائی کہ سعودی عرب نے پہلے ہی سمجھوتے کی حمایت کر رکھی ہے۔