امریکی ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر جان بینر نے بھی شام پر حملے کے لیے اوباما انتظامیہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے
واشنگٹن —
امریکہ کے صدر براک اوباما نے کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ شام پر امریکی فوجی حملے کی جلد از جلد منظوری دے تاکہ صدر بشار الاسد کی حکومت کو اپنے شہریوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کی سزا دی جاسکے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر جان بینر نے بھی شام پر حملے کے لیے اوباما انتظامیہ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کانگریس میں اپنے ساتھیوں پر زور دیا ہے کہ وہ شام کو سبق سکھانے کے لیے امریکی حملے کی منظوری دے دیں۔
صدر اوباما نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ کو اس بات کے قابلِ بھروسا شواہد مل گئے ہیں کہ گزشتہ ماہ دمشق کےنواح میں کیے جانے والے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں شامی حکومت ملوث تھی۔
اس حملے میں 1400 سے زائد شامی ہلاک ہوگئے تھے۔ شام کے صدر بشار الاسد کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کے پاس ان الزامات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ان کی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔
صدر اوباما نے کہاتھا کہ شامی حکومت کی اس کاروائی پر اس کی سرزنش ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے امریکہ شام پر فوجی حملہ کرے گا۔ تاہم انہوں نے اس حملے کو کانگریس کی اجازت سے مشروط کیا تھا۔
صدر اوباما کے اس اعلان کے بعد سے ان کی کابینہ کے کئی اہم وزرا مسلسل ارکانِ کانگریس کو شام پر فوجی حملے کی اجازت دینے پر آمادہ کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
منگل کو امریکی صدر نے 'وہائٹ ہاؤس' میں کانگریس کے دونوں ایوانوں کے سرگرم ارکان کے ایک وفد سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ وہ امریکی فوج کو شام پر حملے کی اجازت دے دیں۔
ملاقات میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ شام پر حملہ مختصر اور نپی تلی فوجی کاروائی ہوگی جسے عراق اور افغانستان کی طویل جنگوں سے تشبیہ نہیں دینی چاہیے۔
صدر اوباما نے کانگریس کے رہنماؤں کو بتایا کہ ان کی انتظامیہ ایک محدود اور مناسب کاروائی پر غور کر رہی ہے جس کے نتیجے میں اسد حکومت کی صلاحیتوں کو کمزور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکہ ایسی حکمتِ عملی بھی وضع کر رہا ہے جس کے ذریعے شامی حزبِ اختلاف کو مضبوط بنایا جائے گا۔
'وہائٹ ہاؤس' پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ امریکی کاروائی کا مقصد شام میں حکومت تبدیل کرنا نہیں بلکہ صرف شامی حکومت کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر سبق سکھانا ہے۔
صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر جان بینر نے کہا کہ وہ اوباما انتظامیہ کو شام پر فوجی حملے کی اجازت دینے کے حامی ہیں اور اپنے ساتھیوں سے بھی اسی موقف کی امید رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ برطانوی پارلیمان کی جانب سے گزشتہ ہفتے شام پر حملے کی اجازت دینے سے انکار کے بعد وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت پہلے ہی کسی فوجی کاروائی میں امریکہ کا ساتھ دینے سے معذرت کرچکی ہے۔
شام کے خلاف کاروائی کے لیے امریکہ کے یورپی اتحادیوں میں فرانس سب سے پیش پیش ہے لیکن منگل کو فرانس کے صدر فرانسس اولاں نے بھی واضح کیا کہ اگر امریکی کانگریس نے صدر اوباما کو شام پر حملے کی اجازت نہ دی تو فرانس تنہا دمشق حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر جان بینر نے بھی شام پر حملے کے لیے اوباما انتظامیہ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کانگریس میں اپنے ساتھیوں پر زور دیا ہے کہ وہ شام کو سبق سکھانے کے لیے امریکی حملے کی منظوری دے دیں۔
صدر اوباما نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ کو اس بات کے قابلِ بھروسا شواہد مل گئے ہیں کہ گزشتہ ماہ دمشق کےنواح میں کیے جانے والے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں شامی حکومت ملوث تھی۔
اس حملے میں 1400 سے زائد شامی ہلاک ہوگئے تھے۔ شام کے صدر بشار الاسد کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کے پاس ان الزامات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ان کی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔
صدر اوباما نے کہاتھا کہ شامی حکومت کی اس کاروائی پر اس کی سرزنش ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے امریکہ شام پر فوجی حملہ کرے گا۔ تاہم انہوں نے اس حملے کو کانگریس کی اجازت سے مشروط کیا تھا۔
صدر اوباما کے اس اعلان کے بعد سے ان کی کابینہ کے کئی اہم وزرا مسلسل ارکانِ کانگریس کو شام پر فوجی حملے کی اجازت دینے پر آمادہ کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
منگل کو امریکی صدر نے 'وہائٹ ہاؤس' میں کانگریس کے دونوں ایوانوں کے سرگرم ارکان کے ایک وفد سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ وہ امریکی فوج کو شام پر حملے کی اجازت دے دیں۔
ملاقات میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ شام پر حملہ مختصر اور نپی تلی فوجی کاروائی ہوگی جسے عراق اور افغانستان کی طویل جنگوں سے تشبیہ نہیں دینی چاہیے۔
صدر اوباما نے کانگریس کے رہنماؤں کو بتایا کہ ان کی انتظامیہ ایک محدود اور مناسب کاروائی پر غور کر رہی ہے جس کے نتیجے میں اسد حکومت کی صلاحیتوں کو کمزور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکہ ایسی حکمتِ عملی بھی وضع کر رہا ہے جس کے ذریعے شامی حزبِ اختلاف کو مضبوط بنایا جائے گا۔
'وہائٹ ہاؤس' پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ امریکی کاروائی کا مقصد شام میں حکومت تبدیل کرنا نہیں بلکہ صرف شامی حکومت کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر سبق سکھانا ہے۔
صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر جان بینر نے کہا کہ وہ اوباما انتظامیہ کو شام پر فوجی حملے کی اجازت دینے کے حامی ہیں اور اپنے ساتھیوں سے بھی اسی موقف کی امید رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ برطانوی پارلیمان کی جانب سے گزشتہ ہفتے شام پر حملے کی اجازت دینے سے انکار کے بعد وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت پہلے ہی کسی فوجی کاروائی میں امریکہ کا ساتھ دینے سے معذرت کرچکی ہے۔
شام کے خلاف کاروائی کے لیے امریکہ کے یورپی اتحادیوں میں فرانس سب سے پیش پیش ہے لیکن منگل کو فرانس کے صدر فرانسس اولاں نے بھی واضح کیا کہ اگر امریکی کانگریس نے صدر اوباما کو شام پر حملے کی اجازت نہ دی تو فرانس تنہا دمشق حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔