وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز بتایا کہ صدر ہوائی کی جزہرہ نما ریاست اور امریکی سموئا کے امریکی علاقے کے درمیان کے جنوب وسطی بحر الکاہل کے خطے کے پانیوں کو تحفظ دینے کے خواہاں ہیں
واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما بحر الکاہل کے ایک خطے کو دنیا کا محفوظ سمندری رقبہ قرار دینے کے ایک منصوبے پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس میں خاص طور پر بحرالکاہل کا وہ دور افتادہ خطہ شامل ہوگا، جہاں ڈرلنگ، ماہی گیری اور دیگر کاروباری سرگرمیوں پر ممانعت ہوگی۔
وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز بتایا کہ صدر ہوائی کی جزہرہ نما ریاست اور امریکی سموئا کے امریکی علاقے کے درمیان کے جنوب وسطی بحر الکاہل کے خطے کے پانیوں کو تحفظ دینے کے خواہاں ہیں۔
حکام نے کہا ہے کہ اِس مجوزہ محفوظ خطے کی باضابطہ حدود کا تعین نہیں کیا جا رہا، لیکن مسٹر اوباما محفوظ بنائے گئے علاقے کو وسعت دے سکیں گے۔ موجودہ 225000مربع کلومیٹر کے علاقے کو بڑھا کر 20لاکھ مربع کلومیٹر کیا جائے گا۔
یہ سمندری علاقہ سات جزیروں اور جھیل کے گِرد حلقہ نما چٹانوں کے قریب اور امریکہ کے کنٹرول میں ہے، جس کے لیے وائٹ ہاؤٴس کا کہنا ہے کہ اس خطے میں دنیا کی مدارینی منطقہٴحارہ سے منسوب سمندری حیات اپنے اصلی ماحول میں پنپ رہی ہے۔ لیکن، اہل کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ اِس سمندری حیات کو خطرات لاحق ہیں، جن کا باعث موسمیاتی تبدیلی اور بحری تیزابیت کے عنصر میں آنے والا اضافہ ہے۔
صدر اوباما ایک حکومتی منصوبہ تیار کرنے کے بھی خواہاں ہیں، جس کے ذریعے مچھلی کے شکار کے کالے دھندے اور سمندری حیات سے متعلق دھوکہ دہی کا انسداد ممکن ہوگا، جہاں بحری خوراک پر مبنی مصنوعات کو غلط لیبل لگا کر فروخت کیا جاتا ہے، تاکہ یہ پتا نہ چلے کہ اِن کا شکار کس مقام سے کیا گیا۔
محکمہٴخارجہ میں ’ہمارا سمندر‘ کے عنوان سے جاری اجلاس کے شرکا کے لیے اپنے ایک وِڈیو پیغام میں، مسٹر اوباما اپنے اِس منصوبے کے تفصیل کا خاکہ پیش کرنے والے ہیں۔
اجلاس کے ایک مقرر، ہالی وڈ کے اداکار، لیونارڈو ڈی کیپریو ہیں۔ اُنھوں نے بحرالکاہل کے ایک ٹکڑے کو تحفظ دینے کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دنیا کے سمندر ضابطوں کی عدم موجودگی کا شکار ہیں۔
یہ سمندری علاقہ جسے مسٹر اوباما وسیع تر تحفظ دینا چاہتے ہیں، اُسے، اِس سے قبل، اُن کے پیش رو، صدر جارج ڈبلیو بش نے امریکی بحری علاقے کو ایک قومی ورثہ قرار دیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز بتایا کہ صدر ہوائی کی جزہرہ نما ریاست اور امریکی سموئا کے امریکی علاقے کے درمیان کے جنوب وسطی بحر الکاہل کے خطے کے پانیوں کو تحفظ دینے کے خواہاں ہیں۔
حکام نے کہا ہے کہ اِس مجوزہ محفوظ خطے کی باضابطہ حدود کا تعین نہیں کیا جا رہا، لیکن مسٹر اوباما محفوظ بنائے گئے علاقے کو وسعت دے سکیں گے۔ موجودہ 225000مربع کلومیٹر کے علاقے کو بڑھا کر 20لاکھ مربع کلومیٹر کیا جائے گا۔
یہ سمندری علاقہ سات جزیروں اور جھیل کے گِرد حلقہ نما چٹانوں کے قریب اور امریکہ کے کنٹرول میں ہے، جس کے لیے وائٹ ہاؤٴس کا کہنا ہے کہ اس خطے میں دنیا کی مدارینی منطقہٴحارہ سے منسوب سمندری حیات اپنے اصلی ماحول میں پنپ رہی ہے۔ لیکن، اہل کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ اِس سمندری حیات کو خطرات لاحق ہیں، جن کا باعث موسمیاتی تبدیلی اور بحری تیزابیت کے عنصر میں آنے والا اضافہ ہے۔
صدر اوباما ایک حکومتی منصوبہ تیار کرنے کے بھی خواہاں ہیں، جس کے ذریعے مچھلی کے شکار کے کالے دھندے اور سمندری حیات سے متعلق دھوکہ دہی کا انسداد ممکن ہوگا، جہاں بحری خوراک پر مبنی مصنوعات کو غلط لیبل لگا کر فروخت کیا جاتا ہے، تاکہ یہ پتا نہ چلے کہ اِن کا شکار کس مقام سے کیا گیا۔
محکمہٴخارجہ میں ’ہمارا سمندر‘ کے عنوان سے جاری اجلاس کے شرکا کے لیے اپنے ایک وِڈیو پیغام میں، مسٹر اوباما اپنے اِس منصوبے کے تفصیل کا خاکہ پیش کرنے والے ہیں۔
اجلاس کے ایک مقرر، ہالی وڈ کے اداکار، لیونارڈو ڈی کیپریو ہیں۔ اُنھوں نے بحرالکاہل کے ایک ٹکڑے کو تحفظ دینے کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دنیا کے سمندر ضابطوں کی عدم موجودگی کا شکار ہیں۔
یہ سمندری علاقہ جسے مسٹر اوباما وسیع تر تحفظ دینا چاہتے ہیں، اُسے، اِس سے قبل، اُن کے پیش رو، صدر جارج ڈبلیو بش نے امریکی بحری علاقے کو ایک قومی ورثہ قرار دیا تھا۔