نئی افغان قیادت کو دورۂ امریکہ کی دعوت

فائل

صدر اوباما نے بدھ کی شب ویڈیو کانفرنس کے ذریعے نئے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہیں امریکہ کے دورے کی دعوت دی۔

صدر براک اوباما نے افغانستان کی نئی قومی حکومت کے رہنماؤں کو آئندہ سال کے آغاز میں دورۂ امریکہ کی دعوت دی ہے۔

'وہائٹ ہاؤس' سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق صدر اوباما نے بدھ کی شب ویڈیو کانفرنس کے ذریعے نئے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہیں امریکہ کے دورے کی دعوت دی۔

بیان کے مطابق صدر نے دونوں رہنماؤں کو متفقہ حکومت کے قیام پر مبارک باد دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان کی سربراہی میں بننے والی حکومت میں امریکہ افغان تعلقات میں بہتری آئے گی۔

'وہائٹ ہاؤس' کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما نے افغان رہنماؤں کے ساتھ افغانستان کی پولیس اور فوج کو مضبوط بنانے، بجٹ اصلاحات اور مالی تنگی کا شکار افغانستان کے لیے وسائل کی فراہمی کے مختلف طریقوں پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

امریکی صدر نے اپنے افغان ہم منصب کو اس دورے کی دعوت ایک ایسے وقت دی ہے جب ایک روز قبل ہی چین کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ افغان صدر غنی نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے چین کا انتخاب کیا ہے۔

خیال رہے کہ اشرف غنی کے پیش رو اور سابق صدر حامد کرزئی کے دورِ حکومت کے آخری چند برسوں میں امریکہ اور افغانستان کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے تھے۔

اپنے اقتدار کے آخری مہینوں میں بالخصوص صدر کرزئی نے اپنے انٹرویوز اور تقریروں میں امریکہ اور افغانستان سے متعلق اس کی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنائے رکھا تھا اور وہ افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار امریکہ کو ٹہرانے لگے تھے۔

صدر کرزئی نے افغان پارلیمان کی منظوری کے باوجود امریکہ کے ساتھ اس سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے مقصد دافغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کی ڈیڈلائن – دسمبر 2014ء – کے بعد بھی امریکی فوجی دستوں کی وہاں موجودگی یقینی بنانا تھا۔

صدر اشرف غنی نے حلف اٹھانے کے اگلے ہی دن اس معاہدے پر دستخط کردیے تھے جس کے تحت دسمبر 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں لگ بھگ 10 ہزار امریکی فوجی موجود رہیں گے جو شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں افغان سکیورٹی فورسز کی معاونت اور انہیں تربیت کی فراہمی کی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔