اوباما ویتنام میں، ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندی اٹھانے کا مطالبہ

ប្តី​ប្រពន្ធ​មួយ​គូ​មើល​ទៅ​ផ្ទះ​ដែល​លិច​ទឹក​ បន្ទាប់​ពី​មាន​ព្យុះ​សង្ឃរា Florence នៅ​ក្រុង Linden រដ្ឋ North Carolina។

اوباما صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے کانگریس کی توثیق کے بغیر ہی ویتنام پر عائد پابندی ہٹا سکتے ہیں۔

صدر اوباما پیر کی صبح ویتنام کے دورے پر پہنچ گئے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ویتنام جنگ کے 41 سال بعد اس وقت امریکہ کے ویتنام سے قریبی تعلقات استوار ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع اور ویتنام کی حکومت دونوں کا مطالبہ ہے کہ صدر اوباما کئی دہائیوں سے ویتنام کو ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندی مکمل طور پر ختم کریں۔

اوباما صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے کانگریس کی توثیق کے بغیر ہی ویتنام پر عائد پابندی ہٹا سکتے ہیں مگر ان کی انتظامیہ چاہے گی کہ وہ سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین جان مکین کی حمایت ضرور حاصل کریں۔

2008 میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مکین ویتنام جنگ میں بحریہ کے ہوا باز تھے اور جنگ کے بعد وہ پانچ سال تک جنگی قیدی کی حیثیت سے ہنوئی میں رہے جہاں ان پر تشدد کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری سے ان کے عوام کے درمیان مفاہمت پیدا ہوئی ہے اور دونوں کے تعلقات کا مستقبل تابناک ہے۔

جان مکین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ وہاں قید رہنے کے بعد 20 مرتبہ ویتنام جا چکے ہیں اور وہاں آنے والی تبدیلیاں بہت گہری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو بحری سفر کی آزادی میں ویتنام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیئے اور چین کا رویہ بین الاقوامی قانونی کے منافی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے دوستی کے رشتے اور تعلقات اچھے ہیں مگر انہیں اپنے عسکری تعلقات اور انسانی امداد میں تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

سینٹر فار امریکن پراگریس سے تعلق رکھنے والے برائن ہارڈنگ نے کہا کہ صدر اوباما کی بات چیت میں سکیورٹی، انسانی حقوق اور تجارت اہم موضوعات ہوں گے۔

ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے انسانی حقوق کے درجنوں کارکنوں اور بلاک مصنفوں پر حملے کیے ہیں اور انہیں قید کیا ہے اور اس سے اظہار رائے، پریس اور مذہب کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔

اس دورے کے دوران صدر اوباما جاپان بھی جائیں گے جہاں توقع ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ میں مفاہمت کی طاقت کو اجاگر کریں گے۔