یورو زون بحران پر توجہ مرکوز رہنے کی توقع

گزشتہ برس فرانس میں ہونے والے G20 سربراہ اجلاس کے دوران عالمی رہنما گفت و شنید کرتے ہوئے۔

اگلے ہفتے میکسیکو میں 20 ملکوں کے گروپ کی اقتصادی سربراہ کانفرنس ہونے والی ہے ۔ توقع ہے کہ اس کانفرنس میں صدر براک اوباما کی بیشتر توجہ یورپی ملکوں کے مالیاتی مسائل حل کرنے پر رہے گی۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ مسٹر اوباما کے سیاسی مستقبل کا انحصار بڑی حد تک اس کانفرنس پر ہو۔

اگرچہ اس سربراہ کانفرنس میں دنیا کے چوٹی کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے نمائندے موجود ہوں گے، پھر بھی بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یورو زون کا بحران G20 کی سربراہ کانفرنس پر چھایا رہے گا۔ یہ کانفرنس میکسیکو کے بحرالکاہل کے تفریحی مقام لاس کابوس میں اگلے پیر کے روز سے شروع ہو رہی ہے ۔

کونسل آن فارن ریلیشنز کے سینیئر فیلو اسٹیورٹ پیٹرک کہتے ہیں’’جہاں تک لاس کابوس کا تعلق ہے، تو ایجنڈے میں سر فہرست یورو زون کا بحران ہو گا۔‘‘

یونان میں اتوار کے پارلیمانی انتخاب سے اس بحران کو طے کرنے کی کوششوں میں اور تیزی آ سکتی ہے ۔ یونان کے ووٹرز کو طے کرنا ہوگا کہ آیا وہ ایسے امیدوار چاہتے ہیں جو کفایت شعاری کے اقدامات کے حامی ہو ں اور اس صورت میں انہیں یورپ سے مدد مل جائے گی، یا وہ ایسے امید واروں کے حق میں ہیں جو اس سمجھوتے کو رد کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں شاید یونان کو یورو زون کو چھوڑنا پڑے۔

صدر اوباما نے وائٹ ہاؤس کی ایک حالیہ نیوز کانفرنس میں یونان کے سوال پر اظہارِ خیال کیا۔ انھوں نے کہا ’’ہمیں ان قربانیوں کا احساس ہے جو یونان کے لوگوں نے دی ہیں، اور یورپی لیڈر جانتے ہیں کہ اگر یونان کے لوگ یورو زون میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں مدد فراہم کرنا ضروری ہو گا۔ لیکن یونان کے لوگوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیئے کہ اگر انھوں نے یورو زون سے نکلنے کا فیصلہ کیا، تو ان کے مصائب اور بڑھ جائیں گے۔‘‘

اوباما انتظامیہ کو امید ہے کہ سربراہ کانفرنس میں آنے والے یورپی لیڈر ، اس بحران سے نمٹنے کے اقدامات کے خاکے کا اعلان کر دیں گے ۔ انہیں یہ امید بھی ہے کہ اس منصوبے میں کفایت شعاری پر کم اور اقتصادی ترقی کو تیز کرنے اور یورپ کے مالیاتی نظام کو مستحکم کرنے پر زیادہ زور دیا جائے گا۔

صدر اوباما نے کہا ہے’’اور اس منصوبے کا ایک جزو یہ ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، کمزور بنکوں میں مزید سرمایہ ڈالنے کا واضح اقدام کیا جائے ۔ اور اتنی ہی اہم یہ بات بھی ہے کہ لیڈرز زیادہ مضبوط یورو زون کے لیے ایک ڈھانچہ اور تصور پیش کریں جس میں بجٹوں اور بنکنگ کی پالیسی میں زیادہ گہرا اشتراکِ عمل شامل ہو۔‘‘

تجزیہ کار اسٹیورٹ پیٹرک کے مطابق اگر یورو زون ختم ہوا تو اس کے اثرات یورپ کے باہر بہت دور تک محسوس کیے جائیں گے ۔’’ یہ اندیشہ بھی ہے کہ اس طرح عالمی معیشت کو ایسے وقت میں دھچکہ لگے گا جب بعض بڑی ابھرتی ہوئی منڈیاں، جن میں چین اور بھارت بھی شامل ہیں، اقتصادی ترقی میں کسی حد تک دشواری محسوس کر رہی ہیں۔‘‘

یورپ امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، اور اگر اس کی معیشت بحال نہ ہوئی، تو اس سے امریکہ کی معیشت کے لیے دشواریاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس طرح، مسٹر اوباما کے لیے نومبر میں دوبارہ منتخب ہونا مشکل ہو جائے گا ۔

لاس کابوس میں قیام کے دوران، صدر اوباما روس کے صدر ولادیمر پوٹن سے بھی ملیں گے۔ ان کی میٹنگ میں جو موضوع زیرِ بحث آ سکتے ہیں ان میں روس کی طرف سے ایران اور شام کے خلاف پابندیوں کی مخالفت، اور یورپ میں امریکہ کے مزائل کے دفاعی نظام کی تنصیب کی تجویز پر ماسکو کا شک و شبہ شامل ہیں۔

لیکن ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو اور مصنف ڈیوڈ ساتر کہتے ہیں کہ انہیں کسی پیش رفت کی توقع نہیں ہے ۔ ’’اس بات کا توقع بہت کم ہے کہ یہ مقاصد اس سر براہ کانفرنس میں حاصل ہو سکیں گے ، کیوں کہ روس کو ان مسائل پر سمجھوتوں کو آخری شکل دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔‘‘

ساتر کہتے ہیں کہ روس کی داخلی سیاست کے حالات ایسے ہیں کہ مسٹر پوٹن کے لیے مسٹر اوباما کے ساتھ عملی طور پر تعاون کرنا آسان نہیں ہے ۔’’ پوٹن کو اصل فکر اپنی حکومت کے استحکام کی ہے، اور اس کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون اتنا ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ، اس قسم کے تعاون سے ان کی حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔‘‘

G20 کی سربراہ کانفرنس میں 19 ملکوں کے لیڈر، اور یورپی یونین شامل ہیں ۔ حالیہ برسوں میں، اس نے G8 کی جگہ لے لی ہے اور عالمی اقتصادی طاقتوں کی اہم ترین کانفرنس بن گئی ہے۔