اوبامہ انتظامیہ نے اِن ڈرون حملوں کا زیادہ تر استعمال بیرون ملک دہشت گردوں کو ہدف بنانے کے لیے کیا ہے
واشنگٹن —
امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے بدھ کے روز بتایا کہ بہت جلد صدر براک اوباما اپنی انتظامیہ کی طرف سے ڈرون حملوں کے قانونی جواز کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے۔
اُنھوں نے یہ بات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے عدلیہ کے ارکان کی طرف سے کی گئی سماعت کے دوران کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ اوباما اس تنازع پر براہِ راست گفتگو کریں گے، ’جو کہ نسبتاً، تھوڑے ہی وقت کے اندر اندر متوقع ہے‘۔
اِس ضمن میں، کانگریس کم از کم 11 ایسے یادداشت ناموں سے پردہ اٹھانے پر غور کر رہی ہے جنھیں محکمہ انصاف کی قانونی برانچ نے تیار کیا ہے اور جو کہ بیرون ملک افراد کو ہدف بنانے کے استعمال کرنے کے قانونی جواز سے متعلق ہیں۔ تاہم، اس ہفتے تک اُنھیں صرف ایسی چار دستاویزات تک رسائی دی گئی ہے۔
ہولڈر نے کہا کہ، ’میں نے سن لیا۔ صدر نے سن لیا ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، اِس کے نتیجے میں، انتظامیہ اس بات پر تیار ہے کہ مزید مواد دستیاب کیا جائے۔
اوبامہ انتظامیہ نے اِن ڈرون حملوں کا زیادہ تر استعمال بیرون ملک دہشت گردوں کو ہدف بنانے کے لیے کیا ہے۔
مثلاً، 2011ء میں امریکہ میں پیدا ہونے والے انور الاولاکی کو یمن میں ہدف بنایا گیا، جن پر الزام تھا کہ وہ اور اُن کے بیٹے یمن میں قائم القاعدہ کے لیڈر ہیں۔ اُن کے بیٹے بھی امریکی شہری تھے۔
ڈرون حملوں کےباعث ہونے والی شہری ہلاکتوں پر مقامی آبادیاں برہمی کا اظہار کرتی ہیں، اور امریکہ کے خلاف پاکستان اور افغانستان میں تناؤ میں اضافہ آتا ہے۔
امریکہ اِن شہری ہلاکتوں کو بہت ہی کم کرکے پیش کرتا ہے، لیکن اِن حملوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے والی تنظیمیں شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد سینکڑوں میں بتاتی ہیں۔
ہولڈر نے سینیٹروں کو بتایا کہ، ہم نے زیادہ شفافیت کے عنصر کو اجاگر کیا ہے۔
اُنھوں نے اس بات کی پیش گوئی کی کہ اطلاعات کےتبادلے کے بعد ڈرون کے استعمال سے اس معاملے میں کافی حد تک آسانی پیدا ہوگی۔
ایک سمجھوتے کے نتیجے میں، سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی طرف سے منگل کو سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر کے طور پر جان برینن کی نامزدگی کی منظوری کے بعد انتظامیہ نے قائمہ کمیٹی اور عملے کے چند ارکان کے ساتھ دو مزید دستاویزات عام کرنے پر اتفاق کیا۔
اُنھوں نے یہ بات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے عدلیہ کے ارکان کی طرف سے کی گئی سماعت کے دوران کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ اوباما اس تنازع پر براہِ راست گفتگو کریں گے، ’جو کہ نسبتاً، تھوڑے ہی وقت کے اندر اندر متوقع ہے‘۔
اِس ضمن میں، کانگریس کم از کم 11 ایسے یادداشت ناموں سے پردہ اٹھانے پر غور کر رہی ہے جنھیں محکمہ انصاف کی قانونی برانچ نے تیار کیا ہے اور جو کہ بیرون ملک افراد کو ہدف بنانے کے استعمال کرنے کے قانونی جواز سے متعلق ہیں۔ تاہم، اس ہفتے تک اُنھیں صرف ایسی چار دستاویزات تک رسائی دی گئی ہے۔
ہولڈر نے کہا کہ، ’میں نے سن لیا۔ صدر نے سن لیا ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، اِس کے نتیجے میں، انتظامیہ اس بات پر تیار ہے کہ مزید مواد دستیاب کیا جائے۔
اوبامہ انتظامیہ نے اِن ڈرون حملوں کا زیادہ تر استعمال بیرون ملک دہشت گردوں کو ہدف بنانے کے لیے کیا ہے۔
مثلاً، 2011ء میں امریکہ میں پیدا ہونے والے انور الاولاکی کو یمن میں ہدف بنایا گیا، جن پر الزام تھا کہ وہ اور اُن کے بیٹے یمن میں قائم القاعدہ کے لیڈر ہیں۔ اُن کے بیٹے بھی امریکی شہری تھے۔
ڈرون حملوں کےباعث ہونے والی شہری ہلاکتوں پر مقامی آبادیاں برہمی کا اظہار کرتی ہیں، اور امریکہ کے خلاف پاکستان اور افغانستان میں تناؤ میں اضافہ آتا ہے۔
امریکہ اِن شہری ہلاکتوں کو بہت ہی کم کرکے پیش کرتا ہے، لیکن اِن حملوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے والی تنظیمیں شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد سینکڑوں میں بتاتی ہیں۔
ہولڈر نے سینیٹروں کو بتایا کہ، ہم نے زیادہ شفافیت کے عنصر کو اجاگر کیا ہے۔
اُنھوں نے اس بات کی پیش گوئی کی کہ اطلاعات کےتبادلے کے بعد ڈرون کے استعمال سے اس معاملے میں کافی حد تک آسانی پیدا ہوگی۔
ایک سمجھوتے کے نتیجے میں، سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی طرف سے منگل کو سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر کے طور پر جان برینن کی نامزدگی کی منظوری کے بعد انتظامیہ نے قائمہ کمیٹی اور عملے کے چند ارکان کے ساتھ دو مزید دستاویزات عام کرنے پر اتفاق کیا۔