امریکہ کا یہ ’مقدس‘ فریضہ ہے کہ وردی والے کسی مرد و خاتون اہل کار کو بے سہارا نہ چھوڑا جائے: صدر اوباما
واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے ایک امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے کیوبا کے گوانتانامو بے میں قائم فوجی قیدخانے سے پانچ افغان قیدیوں کو آزاد کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔
مسٹر اوباما نے پولینڈ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ کا یہ ’مقدس‘ فریضہ ہے کہ وردی والے کسی مرد و خاتون اہل کار کو بے سہارا نہ چھوڑا جائے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اُن کی انتظامیہ نے قیدی کے تبادلے کے معاملے پر ’کچھ عرصے‘ سے کانگریس سے مشورہ جاری رکھا تھا۔
سارجنٹ بووے برگڈہل کی طالبان سے رہائی کے بعد اِن پانچوں قیدیوں کو اتوار کو ہوائی جہاز کے ذریعے قطر پہنچا دیا گیا۔ تبادلے کے شرائط کے مطابق، گوانتانامو کے اِن قیدیوں پر ایک سال تک قطر سے باہر جانے کی پابندی ہے۔
امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ، جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا ہے کہ تبادلے کا معاملہ فوجی کی رہائی کے حصول کے لیے ’شاید آخری اور بہترین موقع تھا‘۔
امریکہ کی مغربی ریاست اڈاہو سے تعلق رکھنےو الے، 28 برس کے برگڈہل کے معاملے میں کچھ سوالات اب بھی جواب طلب ہیں، جنھیں طالبان نے 30 جون 2009ء میں یرغمال بنا لیا تھا، جس سے دو ہی ماہ قبل وہ افغانستان پہنچے تھے۔
اپنے فیس بک پیج پر، ڈیمپسی نے کہا کہ ’جب تک جرم ثابت ہو، برگڈہل بے گناہ ہے‘۔ تاہم، اُنھوں نے یہ انتباہ بھی دیا کہ بدانتظامی کا پتا چلنے کی صورت میں، اس معاملے میں فوجی حکام پردہ پوشی سے کام نہیں لیں گے۔
اتوار کے روز امریکی وزیر خارجہ، چک ہیگل نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ قیدیوں کا تبادلہ شدت پسندوں کے ساتھ تعلقات کے لیے پیش رفت کا سبب بن سکتا ہے۔
مسٹر اوباما نے پولینڈ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ کا یہ ’مقدس‘ فریضہ ہے کہ وردی والے کسی مرد و خاتون اہل کار کو بے سہارا نہ چھوڑا جائے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اُن کی انتظامیہ نے قیدی کے تبادلے کے معاملے پر ’کچھ عرصے‘ سے کانگریس سے مشورہ جاری رکھا تھا۔
سارجنٹ بووے برگڈہل کی طالبان سے رہائی کے بعد اِن پانچوں قیدیوں کو اتوار کو ہوائی جہاز کے ذریعے قطر پہنچا دیا گیا۔ تبادلے کے شرائط کے مطابق، گوانتانامو کے اِن قیدیوں پر ایک سال تک قطر سے باہر جانے کی پابندی ہے۔
امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ، جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا ہے کہ تبادلے کا معاملہ فوجی کی رہائی کے حصول کے لیے ’شاید آخری اور بہترین موقع تھا‘۔
امریکہ کی مغربی ریاست اڈاہو سے تعلق رکھنےو الے، 28 برس کے برگڈہل کے معاملے میں کچھ سوالات اب بھی جواب طلب ہیں، جنھیں طالبان نے 30 جون 2009ء میں یرغمال بنا لیا تھا، جس سے دو ہی ماہ قبل وہ افغانستان پہنچے تھے۔
اپنے فیس بک پیج پر، ڈیمپسی نے کہا کہ ’جب تک جرم ثابت ہو، برگڈہل بے گناہ ہے‘۔ تاہم، اُنھوں نے یہ انتباہ بھی دیا کہ بدانتظامی کا پتا چلنے کی صورت میں، اس معاملے میں فوجی حکام پردہ پوشی سے کام نہیں لیں گے۔
اتوار کے روز امریکی وزیر خارجہ، چک ہیگل نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ قیدیوں کا تبادلہ شدت پسندوں کے ساتھ تعلقات کے لیے پیش رفت کا سبب بن سکتا ہے۔