امریکہ نے عراق کے شمالی علاقے میں شدت پسندوں سے بچنے کے لیے ایک پہاڑی پر پناہ گزین ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے مختلف اقدامات پر غور شروع کردیا ہے۔
صدر براک اوباما کے ایک مشیر کے مطابق اوباما انتظامیہ سِنجار کے پہاڑی علاقے میں پھنسے ہوئے ہزاروں عیسائیوں اور یزیدیوں کی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے منتقلی یا انہیں فوج کی حفاظت میں محفوظ راستہ فراہم کرنے سمیت مختلف اقدامات پر غور کر رہی ہے۔
امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی بین رہوڈز نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا ہے کہ صدر اوباما آئندہ چند روز کے دوران فیصلہ کریں گے کہ سِنجار میں پھنسے ہوئے عراقی اقلیتوں کے افراد کو بچانے کے لیے امریکی فوجی علاقے میں بھیجے جائیں یا نہیں۔
یہ افراد گزشتہ ماہ 'ریاستِ اسلامیہ' (سابق 'دولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام - داعش) کے جنگجووں کے شمالی عراق کے عیسائی اور یزیدی اکثریتی قصبوں پر اچانک قبضے کے بعد بے سرو سامانی کے عالم میں گھر بار چھوڑ کر سِنجار کے پہاڑ پر پناہ گزین ہوگئے تھے۔
امریکی فوجی طیارے صدر اوباما کے حکم جبلِ سنجار پر پھنسے ہوئے پناہ گزینوں کے لیے روز کی بنیاد پر فضا سے امدادی سامان گرا رہے ہیں۔ جب کہ برطانیہ اور فرانس نے بھی منگل کو ان افراد کی مدد کے لیے فضا سے خوراک اور دیگر سامان علاقے میں گرایا۔
صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کے مشیر کا کہنا تھا کہ سِنجار اور شمالی عراق کے دیگر علاقوں کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے امریکہ نے منگل کو وہاں مزید 129 فوجی تجزیہ کار تعینات کیے ہیں جن کی جانب سے موصول ہونے والی رپورٹوں کی روشنی میں صدر اوباما مستقبل کے فیصلے کریں گے۔
بین رہوڈز نے کہا کہ اوباما انتظامیہ کے ان اقدامات کا مقصد عراقی حکومت اور اپنے بین الاقوامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر پہاڑ پر پھنسے ہوئے افراد کو وہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کرنا ہے۔
امریکی ریاست میساچوسٹس کے علاقے ایڈگر ٹاؤن میں - جہاں صدر اوباما ان دنوں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ تعطیلات گزار رہے ہیں – میں معمول کی بریفنگ دیتے ہوئے امریکی صدر کے مشیر کا کہنا تھا کہ عراق میں امریکی فوجی بھیجنے کے باوجود وہ نہیں سمجھتے کہ اس کے نتیجے میں امریکی فوج عراق کے بحران میں ملوث ہوجائے گی۔
صدر اوباما اعلان کرچکے ہیں کہ وہ عراق میں جاری بحران سے نبٹنے کے لیے کسی بھی صورت میں امریکی زمینی فوج کو دوبارہ عراق نہیں بھیجیں گے جسے انہوں نے آٹھ برس طویل جنگ کے بعد وہاں سے 2011ء میں واپس بلایا تھا۔