امریکہ کے صدر براک اوباما نے ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے اس پر ایران اور خود امریکہ کے سیاسی حلقوں کی جانب سے ہونے والے اعتراضات کو مسترد کردیا ہے۔
اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' پر نشر کیے جانے والے ایک انٹرویو میں صدر اوباما نےکہا کہ جوہری معاہدہ شام میں برسوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ایران –امریکہ تعاون کے آغاز کی بنیاد بن سکتا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ان کا نہیں خیال کہ ایسا فوراً ہوجائے گا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان اس تعاون کا امکان موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی بھی ایسا معاہدہ خارج از امکان نہیں جس کا مقصد شام کی جغرافیائی ہیئت کو برقرار رکھنا اور خطے میں مسلمان دہشت گردوں کو پنپنے سے روکنا ہو۔
صدر اوباما نے الزام عائد کیا کہ ایران کے ساتھ گزشتہ ماہ طے پانے والے معاہدے کے مخالف امریکی – خصوصاً ری پبلکن ارکانِ کانگریس اس معاملے میں ایران کے ان سخت گیر حلقوں کے موقف کو تقویت پہنچارہے ہیں جو معاہدے کے حق میں نہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی قانون سازوں کی جانب سے معاہدے کی مخالفت کا فائدہ ایران میں پاسدارانِ انقلاب، القدس فورس جیسے سخت گیر گروہوں اور ان ایرانی حلقوں کو پہنچ رہا ہے جو ایرانی حکو مت کے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون کے مخالف ہیں۔
صدر اوباما کا یہ انٹرویو جمعرات کو ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکی سینیٹ کے معروف ڈیمو کریٹ رکن چک شمر نے سینیٹ میں رائے شماری کے دوران ایرانی معاہدے کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔
ایران کے ساتھ معاہدے پر امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ستمبر میں رائے شماری ہوگی جس میں کانگریس ارکان معاہدہ منظور کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے۔
لیکن صدر اوباما پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ اگر کانگریس نے معاہدے کے خلاف ووٹ دیا تو وہ اس کے فیصلے کو ویٹو کردیں گے۔