اَسی لاکھ سے زائد آبادی والے شہر، نیو یارک کو امریکہ کا ثقافتی دارالخلافہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر آرٹ، آرکی ٹیکچر، تھیٹر، میوزک، ڈانس اور فلم کے لیے اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔
نیو یارک ثقافتی تنوع کی بنا پر اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ یہاں رہنے والوں میں تقریباً 36فی صد افراد کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوئے، لیکن اب یہاں بستے ہیں۔اگر آپ پوچھیں کہ اُن کے آبائی وطن کون سے تھے، تو شاید آپ یہی سنیں گے کہ وہ جمہوریہ ڈمینیکن، چین، جمیکا، گُیانہ، میکسیکو، اکواڈور، ہیٹی، ٹرینیڈاڈ، ٹوباگو، کولمبیا یا پھر روس سے آئے تھے۔نئے نقل مکانی والے بیشتر افراد اِنہی 10ملکوں میں سے آتے ہیں۔ لیکن، امریکہ کے اِس سب سے بڑے شہر میں تقریباً 170زبانیں بولی جاتی ہیں۔
یورپ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد، کوئی 100برس قبل کی بات ہے، جب یہاں آن بسی تھی۔ یہ لوگ اٹلی، آئرلینڈ، جرمنی، روس اور پولینڈ سے آئے تھے۔
آج نیو یارک میں اسرائیل سے باہر مقیم یہودیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔پھر یہاں افریقی امریکیوں کی تعداد بھی کسی دوسرے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ نقل مکانی کرکے آنے والے افراد عام طور پر اُنہی کمیونٹیز میں ہی رہتے ہیں جہاں اُن کے ملکوں سے آنے والے دوسرے افراد بھی رہتے ہوں۔ إِن میں اطالوی، روسی، چینی، کوریائی، ڈومینیکن اور پورٹو ریکن شامل ہیں۔
نیو یارک میں بسنے والے سفید فاموں کی شرح 44فی صد ہے۔ ایک چوتھائی سے کچھ زیادہ افریقی امریکی، جب کہ تقریباً ایک چوتھائی ہسپانوی یا پھر لاطینی امریکی سے آئے ہیں۔اِس کے علاوہ، تقریباً 12فی صد کے آباؤ اجداد ایشیائی تھے۔
اِس گنجان آباد شہر میں لاکھوں افراد چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رہتے ہیں۔ مین ہٹن نیویارک کا ایک بے حد جانا پہچانا علاقہ ہے۔
مین ہٹن کے گلی کوچوں میں بے حد ہجوم رہتا ہے، کیونکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں کا م کرنے کے لیے بھی آتی ہے۔
بیشتر افراد بسوں، ٹیکسیوں یا پھر زیرِ زمین چلنے والے ’سب ویز‘ میں سفر کرتے ہیں اور بیشتر لوگ یہاں کاریں لانے کو ترجیح نہیں دیتے۔
زیادہ تر لوگ بلند و بالا اپارٹمنٹ بلنڈنگز میں رہائش پذیر ہیں۔ مین ہٹن میں شہر کے امیر ترین اور غریب ترین لوگ بستے ہیں۔ مین ہٹن کے علاوہ نیویارک کے چار اور اہم علاقے ہیں جنھیں برونکس، بروکلین، سٹریٹن آئی لینڈ اور کوئنز کہا جاتا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: