پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سربراہ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ جہاں لاپتا افراد کی ایک بڑی تعداد کے معاملات نمٹائے جا چکے ہیں وہیں ماضی کی نسبت خاص طور پر بلوچستان سے رپورٹ ہونے والے ایسے واقعات میں قابل ذکر کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق سینیئر جج جاوید اقبال نے بدھ کو ایوان بالا 'سینیٹ' کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو کمیشن کی کارکردگی سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے سامنے 4329 کیسز لائے گئے جس میں سے اب تک 2899 کو نمٹایا جا چکا ہے۔
ان کے بقول جبری طور پر گمشدگہ افراد سے متعلق غیر سرکاری تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کی طرف سے پیش کیے جانے والے اعدادوشمار درست نہیں کیونکہ جب ان افراد کے نام اور پتے دریافت کیے جاتے ہیں تو کوئی چیز سامنے نہیں آتی۔
جاوید اقبال نے کمیٹی کے ارکان کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے افسران سمیت کسی بھی ادارے کے عہدیداروں کو کمیشن نے جب بھی طلب کیا وہ پیش ہوئے اور جب تک ثبوت نہ ہوں تو اداروں کے خلاف کیسے کارروائی کی جا سکتی۔
لاپتا افراد کے لواحقین اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ جبری طور پر گمشدہ افراد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارکنان اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ لیکن یہ ادارے ان الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔
کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کئی ماہ سے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے کسی لاپتا شخص کی مسخ شدہ لاش ملنے کا واقعہ رپورٹ نہیں لیکن پنجاب میں لاپتا افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور وہاں سے ایسے 247 افراد کے کیس کمیشن میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
قائمہ کمیٹی کی سربراہ سینیٹر نسرین جلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے سربراہ کو اس لیے بلایا گیا تھا کہ ان سے یہ دریافت کیا جائے کہ قانون ساز کیا کر سکتے ہیں جس سے لاپتا افراد کے ریکارڈ میں بہتری آ سکے۔
ان کے بقول جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ کمیشن جو بھی رپورٹ تیار کرتا ہے اس میں سفارشات بھی ہوتی ہیں جس سے ایسے معاملات کے تدارک کے لیے راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
"طے ہوا کہ تمام فریقین قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان کو بھی بلائیں گے تاکہ وہ ہمیں بتا سکیں کہ ان کے لیے کیا چیزیں ممکن ہیں تاکہ ان کے بھی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر ایسی چیزیں وضع کر سکیں جسے سے جبری گمشدگی کی تعداد میں کمی آئے۔"
حکومت نے 2011ء میں جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتا افراد کے معاملات کی تحقیقات کے لیے یہ کمیشن تشکیل دیا تھا۔ بدھ کو ہی جاوید اقبال نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کا منصب بھی سبنھالا لیکن ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کے کمیشن کا کام مکمل ہونے تک وہ اس کمیشن کی سربراہی سے سبکدوش نہیں ہوں گے۔