ناروے کی خواتین کی بیچ ہینڈ بال ٹیم کو ’نامناسب لباس‘ پہننے پر اس وقت 1500 یورو جرمانے کا سامنا کرنا پڑا جب ٹیم کے ارکان نے یورپین چیمپئین شپ میں بلغاریہ کے خلاف 'بکینی باٹم' پہننے کی بجائے شارٹس پہن کر میچ کھیلا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یورپئین ہینڈبال فیڈریشن نے ایک بیان میں کہا ہے اس کی ڈسپلنری کمیٹی نے کانسی کے تمغے کے لیے میچ کے دوران 'غیر مناسب کپڑے' پہننے کی شکایت پر کارروائی کی ہے۔
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ خواتین کی جانب سے شارٹس پہننا کھیل کے قوانین سے متصادم تھا۔
فیڈریشن کی جانب سے ہر کھلاڑی کو 150 یورو کا جرمانہ کیا گیا ہے جس پر ناروے کی ہینڈ بال کے فیڈریشن نے نکتہ چینی کی ہے اور ملک کے کھیلوں کے وزیر عابد راجہ نے اس فیصلے کو انتہائی غیر مناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔
اخبار نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ناروے کی ٹیم کی رکن مارٹینا ویلفلئیر نے کہ ’’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم شارٹس پہن کر کیوں نہیں کھیل سکتے۔ جہاں آج کل جسمانی ساخت پر اعتراضات اور اس طرح کی دیگر چیزیں عام ہیں، ایسے میں آپ کو یہ اختیار ہونا چاہئے کہ آپ کھیلنے کے لیے تھوڑا زیادہ لباس پہن سکیں۔‘‘
نیویارک ٹائمز سے ہی بات کرتے ہوئے بین الاقوامی ہینڈ بال فیڈریشن کی ترجمان جیسیکا راکسٹراہ نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ خواتین کے لباس سے متعلق ایسے قوانین کیوں بنائے گئے اور یہ کہ فیڈریشن اس وقت ان معاملات کو دیکھ رہی ہے۔
ناروے کی فیڈریشن نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ وہ ان خواتین کے اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے اور بس بہت ہو گیا کہنے پر فخر کرتی ہے۔
بقول ان کے ’’ناروے ہینڈبال فیڈریشن آپ کی حمایت کرتی ہے۔ ہم مل کر لباس سے متعلق قوانین کو تبدیل کروانے کی کوشش کریں گے، تاکہ کھلاڑی ایسا لباس پہن کر کھیل سکیں جسے وہ آرام دہ سمجھیں۔‘‘
Vi er kjempestolte over disse jentene som under EM hevet stemmen og ga beskjed om at NOK ER NOK! Vi i NHF står bak dere og støtter dere. Sammen skal vi fortsette å kjempe for å endre regelverket for bekledning, slik at spillerne får spille i det tøyet de er komfortable med! pic.twitter.com/MmfiMtVz2Q
— Norges Håndballforbund (@NORhandball) July 20, 2021
یاد رہے کہ ساحل سمندر پر کھیلی جانے والی بیچ ہینڈبال کے ضوابط کے مطابق خواتین کے لیے لازمی ہے کہ وہ بکنی ٹاپ اور باٹم پہنیں، جب کہ مرد ٹینک ٹاپ اور شارٹس پہن سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس فیصلے کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خواتین کے لباس سے متعلق ضوابط بنانے پر تنقید ہو رہی ہے۔
ناروے کی پارلیمنٹ کی میمبر لینے ویسٹ گارد ہالے نے بین الاقوامی ہینڈ بال فیڈریشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جبری طور پر بکنی پہنانے کے نامناسب اقدام کو ختم کرنا چاہئے۔ ان کے مطابق یہ اقدام صنفی تعصب پر مبنی ہے اور یہ کھیل اور فیڈریشن کی تکریم کے خلاف ہے۔
Dear @ihf_info. 🤾🏻♀️Can you please stop the forced bikini nonsense at your beach handball games? It is embarrassing, disgraceful and sexist. You are ruining both the sport and your own reputation.Best Regards,Lene Westgaard-HalleMember of Parliament
— Lene Westgaard-Halle (@LeneWestgaard) July 14, 2021
ایک صارف ڈاکٹر جی سون نے ہینڈ بال کی مردوں اور عورتوں کی ٹیموں کی تصاویر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ وہ جانتی تھیں کہ مرد اور خواتین کھلاڑیوں کے لیے دو طرح کے معیار موجود ہیں مگر یہ تصویر تو بہت کچھ بتا رہی ہے۔
I knew there was a double standard for uniforms worn by male and female athletes... but this picture of Norway%27s beach handball team says a lot. https://t.co/qdZBKU7pTK pic.twitter.com/KoWdOvecmr
— Dr. Ji Son (@cogscimom) July 20, 2021
ایک صارف مینا نے لکھا کہ حجاب پہننے والی خواتین جب یورپ میں، بقول ان کے، اسلاموفوبیا کے زیر اثر قوانین کے خلاف احتجاج کرتی ہیں تو اس کی میڈیا پر اتنی کوریج نہیں ہوتی جتنی ناروے کی خواتین ہینڈبال کی ٹیم کی جانب سے بکنی پہننے سے انکار کی ہو رہی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ دونوں معاملات ذاتی اختیار کے نہیں ہیں؟
Hijabis protesting against Islamophobic regulations doesn’t get half the coverage that Norway’s female handball players refusing to wear bikini are getting- are they both not a matter of personal choice? One is championed as courageous whilst others go on as ‘oppressed’ tools.
— Meena (@m_yaqubi7) July 19, 2021
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد خبر رساں ادارے رائیٹرز سے لیا گیا)