شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی سامنے آنے والی نئی تعداد پر عہدیدار عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا ایک سے زائد مرتبہ اندراج کیا گیا ہو۔
فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے تازہ اعدادو شمار کے مطابق اب تک نقل مکانی کرنے والے آٹھ لاکھ سے زائد افراد کا اندراج کیا گیا ہے۔
تاہم وفاقی وزیر اور نقل مکانی کرنے والے افراد کے معاملات کے نگران عبدالقادر بلوچ کا کہنا ہے کہ 1998ء میں شمالی وزیرستان کی آبادی چار لاکھ تھی اور اب ممکن نہیں کہ ان سالوں میں یہ دوگنا زیادہ ہو گئی ہو۔
" بات یہی ہے کہ دو، دو مرتبہ بھی اندراج ہوا رہا ہے تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آج بھی ہم بیٹھے غور کیا۔ ہم ان (بے گھر افراد) میں سے کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے، راشن ہر کسی کو دینا چاہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس سہولت کا غلط استعمال کیا جارہا ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں ایک دو روز میں حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔"
بے گھر افراد کے اندراج کے لیے خیبر پختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور میں بھی سنٹر کیا گیا تھا جہاں پیر کو بدنظمی کے بعد یہ عمل معطل کردیا لیکن منگل کو دوبارہ یہاں رجسٹریشن شروع ہوئی۔
متاثرین اندراج اور راشن کی تقسیم میں بدنظمی کی شکایت بھی کرتے نظر آتے ہیں اور اس دوران مختلف اوقات میں انتظامی اہلکاروں سے تلخ کلامی اور پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی کی خبریں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔
تاہم وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت ان بے گھر افراد کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے انھیں ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بے گھر افراد کی مدد کے لیے نہ تو وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی راشن کی اور ضرورت پڑنے پر مزید وسائل بھی مہیا کیے جائیں گے۔
"پانچ ارب، دس ارب، بیس ارب نہیں تیس ارب، جتنی بھی ضرورت ہوگی حکومت دے گی اور دے رہی ہے اس میں کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی گئی رقم پر، یہاں پر موجود تمام انتظامی عہدیداروں سے میں کہتا ہوں کہ جتنے وسائل چاہیں وہ بتائیں اس کا کوئی مسئلہ نہیں، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔"
گزشتہ ماہ کے وسط میں شمالی وزیرستان میں فوج نے ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف ضرب عضب کے نام سے بھرپور کارروائی شروع کی تھی۔ اس کارروائی سے قبل ہی مقامی قبائلیوں نے یہاں سے نقل مکانی شروع کر دی تھی۔
بے گھر ہونے والے افراد خیبر پختونخواہ کے مختلف بندوبستی علاقوں میں مقیم ہیں جب کہ کئی ہزار افراد سرحد عبور کر کے مشرقی افغان صوبے میں بھی منتقل ہوئے ہیں۔