پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوج کی فضائی اور زمینی کارروائیوں میں 55 مشتبہ دہشت گرد مارے گئے جن میں حکام کے مطابق دو شدت پسند کمانڈر بھی شامل ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے ہفتہ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جمعہ کی شام کی گئی فضائی کارروائیوں میں کم از کم 39 ’دہشت گرد‘ مارے گئے۔
بیان میں بتایا گیا کہ یہ کارروائی دتہ خیل کے علاقے میں کی گئی جس میں زیر زمین اسلحہ و گولہ بارود کے ایک بڑے ذخیرے کے علاوہ دہشت گردوں کے زیر استعمال سرنگوں کے نظام کو بھی تباہ کر دیا گیا۔
فوج کے ایک اور بیان کے مطابق جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب اورکرزئی اور خیبر ایجنسی کے سرحدی علاقوں خزانہ کنڈاؤ اور شیرین درہ میں دہشت گردوں کے جتھے کو نشانہ بنایا جس میں 16 عسکریت پسند مارے گئے جب کہ 20 جنگجو زخمی بھی ہوئے۔
بیان کے مطابق شدید لڑائی کے بعد دہشت گرد پسپا ہو گئے اور اُن کے دو ساتھیوں کو شدید زخمی حالت میں گرفتار بھی کر لیا گیا۔
جھڑپوں میں چار فوجی بھی زخمی ہوئے۔
جن علاقوں میں تازہ فضائی اور زمینی کارروائیاں کی گئیں وہاں تک میڈیا کے نمائندوں کو رسائی نہیں اس لیے آزاد ذرائع سے ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
اُدھر صوبہ خیبر پختونخواہ میں پولیس نے چارسدہ کے علاقے میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائی کر کے ایک انتہائی مطلوب شدت پسند کمانڈر امان اللہ عرف عرفان خراسانی کو گرفتار کر لیا ہے۔
حکام کے مطابق عرفان خراسانی مبینہ طور پر پولیس پر متعدد حملوں کے علاوہ ایک صحافی مکرم خان کے قتل میں بھی ملوث تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان کی فوج نے 15 جون کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں چھپے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کے علاوہ دیگر شدت پسند تنظیموں کے مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔
زمینی فوج کی کارروائیوں اور پیش قدمی کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو فضائیہ کی مدد سے بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن میں حکام کے مطابق اب تک 1200 سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
اس قبائلی علاقے سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کے خلاف دیگر قبائلی علاقوں خاص طور پر خیبر ایجنسی میں بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔
اکتوبر میں فوج نے ’خیبر ون‘ کے نام سے جو آپریشن شروع کیا تھا اس میں بھی درجنوں دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔
دسمبر کو پشاور کے ایک اسکول پر طالبان جنگجوؤں کے حملے میں 133 بچوں سمیت 149 افراد کی ہلاکت کے بعد دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے حق میں مطالبات میں اضافہ ہوا۔
ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد کا پاکستان بدل چکا ہے جہاں دہشت گردی کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے۔