چین کا کہنا ہے کہ وہ شمالی کوریا کی طرف سے حالیہ جوہری تجربات کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے شمالی کوریا کے خلاف عائد کی جانے والی مزید پابندیوں کی حمایت کرے گا۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے آج ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ ’’جزیرہ نما کوریا میں رونما ہونے والی حالیہ صورت حال کے باوصف اس بحران سے نمٹنے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ضروری اقدامات اختیار کرنے چاہئیں۔‘‘
تاہم چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’پابندیوں اور دباؤ‘ کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا کے ساتھ ’بات چیت اور مذاکرات‘ کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔
چین شمالی کوریا کا سب سے بڑا سفارتی اور اقتصادی اتحادی ہے اور اُس کا خیال ہے کہ محض شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت کرنے سے بحران کی کیفیت میں کمی نہیں ہو گی۔
اُدھر امریکی صدر ٹرمپ نے بدھ کے روز چینی صدر شی جن پنگ سے فون پر بات کی۔
اس کے بعد جب اُن سے شمالی کوریا کے خلاف متوقع فوجی کارروائی کے بارے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ اگرچہ فوجی کارروائی امریکہ کی پہلی ترجیح نہیں ہو گی تاہم اس کا فیصلہ آئیندہ کی صورت حال دیکھ کر ہی کیا جائے گا۔
جب وائس آف امریکہ کے نمائیندے نے اُن سے پوچھا کہ اُنہوں نے چینی صدر سے بات چیت کے دوران شمالی کوریا کے حوالے سے کیا گفتگو کی تو اُنہوں نے جواب دیا کہ چینی صدر شی شمالی کوریا کے حوالے سے کوئی اقدام اُٹھانا چاہتے ہیں تاہم یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ وہ اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ چینی صدر سے بہت اچھی بات چیت ہوئی ہے جو کافی وقت تک جاری رہی۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ چینی صدر شی مجھ سے سو فیصد متفق ہیں اور وہ جزیرہ نما کوریا میں جاری صورت حال سے خوش نہیں ہیں۔
شمالی کوریا کی طرف سے حالیہ ترین ایٹمی تجربے کے بارے میں متعدد بین الاقوامی ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ ہائیڈروجن بم کا تجربہ تھا۔ اس کے بعد سے بہت سے ملکوں کے سربراہان اس صورت حال کے بارے میں ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔
جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے جنوبی کوریا کے صدر مون جائے اِن سے ملاقات کے دوران شمالی کوریا کے خلاف سخت تر سفارتی اور اقتصادی پابندیوں کی حمایت کی ہے۔
دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات روس کے مشرقی ساحلی شہر ولادی واسٹک میں ہونے والی اقتصادی سربراہ کانفرنس کے موقع پر ہوئی۔
ملاقات میں دونوں راہنماؤں نے کہا کہ وہ چین اور روس سے توقع کرتے ہیں کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف مزید سفارتی اور اقتصادی پابندیوں کی حمایت کریں گے۔
امریکہ نے شمالی کوریا کے خلاف عائد کی جانے والی متوقع پابندیوں کا ایک مسودہ سلامتی کونسل کے ارکان کے حوالے کیا ہے اور اُن پر زور دیا ہے کہ پیر کو اس پر رائے شماری کی جائے۔
وائس آف امریکہ نے اس مسودے کی کاپی حاصل کی ہے جس میں شمالی کوریا کو تیل کی مصنوعات اور قدرتی گیس کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ شمالی کوریا اپنی ضرورت کا تقریباً تمام تر تیل اور گیس چین سے حاصل کرتا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس پر پابندی کی صورت میں شمالی کوریا فوری طور پر شدید بحران میں مبتلا ہو جائے گا۔
امریکی مسودے میں شمالی کوریا سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی درآمد پر بھی مکمل پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ شمالی کوریا ہر سال ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد سے کروڑوں ڈالر کی آمدنی حاصل کرتا ہے۔
اس کے علاوہ شمالی کوریا سے شہریوں کی ملازمتوں کیلئے بیرون ملک روانگی پر بھی پابندی کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ بیرون ملک کام کرنے والی شمالی کوریائی باشندے ہر سال بہت سی رقوم اپنے ملک بھیجتے ہیں۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن نے شمالی کوریا کے خلاف پابندیاں سخت کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بحران کے حل کیلئے واحد راستہ مذاکرات ہی ہے۔ روس اور چین نے شمالی کوریا سے کہا ہے کہ وہ اپنا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ختم کردے جس کے جواب میں امریکہ اور جنوبی کوریا کی فوجی مشقیں بھی ختم کی جا سکتی ہیں۔
روسی صدر پوٹن نے آج کہا ہے کہ وہ اور جاپانی وزیر اعظم آبے شمالی کوریا کے حالیہ ترین ایٹمی تجربے کی شدید طور پر مذمت کرتے ہیں۔
درایں اثنا امریکہ اور جنوبی کوریا نے جنوبی کوریا میں امریکی ساختہ میزائلوں کے دفاعی نظام کے باقی حصوں کی تنصیب کا کام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جنوبی کوریا کے جنوبی شہر سیونگ جو کے ایک گالف کورس میں ٹرکوں کے ذریعے ٹرمنل ہائی آلٹی چیوڈ ایریا ڈیفنس یعنی THAAD کے سلسلے میں چار راکٹ لانچر پہنچا دئے گئے ہیں۔ اس سے قبل دو راکٹ لانچر پہلے ہی وہاں نصب کئے جا چکے ہیں۔
تاہم اس موقع پر جنوبی کوریا میں شدید مظاہرے بھی جاری ہیں۔ مظاہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس دفاعی نظام میں شامل طاقتور راڈار کے ذریعے عام لوگوں کی صحت متاثر ہو گی۔ اس کے علاوہ یہ شہر شمالی کوریا کی طرف سے ممکنہ حملے کا نشانہ بھی بن سکتا ہے۔
چین اور روس نے بھی قومی سلامتی کے حوالے سے اس دفاعی نظام کی تنصیب کی مخالفت کی ہے۔ اس سلسلے میں چین نے جنوبی کوریا سے رسمی طور پر احتجاج بھی کیا ہے۔