نور مقدم قتل کیس، ظاہر جعفر سمیت 12 ملزمان کے خلاف فردِ جرم عائد

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق سفارت کار کی بیٹی کے بہیمانہ قتل میں نامزد 12 ملزمان پر فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے جب کہ کیس کے باقاعدہ ٹرائل کے لیے 20 اکتوبر کو گواہ طلب کر لیے گئے ہیں۔

البتہ ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا اس کیس کے بارے میں حکم ہے کہ کیس کی سماعت دو ماہ میں مکمل کی جائے۔

جمعرات کو اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے ملزمان پر فرد جرم عائد کی تو مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی نے فردِ جرم پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

قتل میرے ہاتھ سے ہوا، میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں مرنا چاہتا: ظاہر جعفر

کمرۂ عدالت میں سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر روسٹرم پر آ گئے اور متعدد بار عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالتے رہے۔

دورانِ سماعت ملزم ظاہر جعفر نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عدالت سے معافی مانگی اور جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں آپ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔

ملزم نے استدعا کی کہ اسے یا تو معاف کر دیا جائے یا سزائے موت دی جائے کیوں کہ وہ جیل میں نہیں رہ سکتے کیوں کہ وہاں اُن پر تشدد ہوتا ہے۔

جائے واردات سے پستول کی برآمدگی کے تذکرے پر ظاہر جعفر نے کہا کہ پستول میرے باپ کا ہے، اس پر انگلیوں کے نشان نور مقدم کے ہیں۔ قتل میرے ہاتھ سے ہوا تھا ہاں میں مانتا ہوں، ظاہر نے اپنے والد کے وکیل رضوان عباسی کے بارے میں کہا کہ وکیل جو کچھ کہہ رہا ہے بے بنیاد ہے مجھے چھوڑ دیں۔

ظاہر نے کہا کہ "ہم لڑے تھے میری غلطی تھی وہ بھی غصے میں تھی۔ میں جیل کی سلاخوں میں مرنا نہیں چاہتا، میری شادی ہونی چاہیے، بچے ہونے چاہئیں، مجھے گھر میں قید کر دیں، پھانسی دے دیں میں جیل میں نہیں رہ سکتا یا معافی دے دیں۔"

ظاہر جعفر نے ایک موقع پر تھیراپی ورکس کے ملازمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بندے میرے گھر داخل ہوئے، میری زندگی خطرے میں ہے اور یہ میری جائیداد کا ذکر کر رہے ہیں، میری جائیداد سے متعلق یہاں بات نہ کی جائے۔ نور میری دوست تھی لہٰذا آپ کیوں مداخلت کر رہے ہیں، نور قربان ہونا چاہتی تھی اور خود کو قربانی کے لیے پیش کیا۔

ظاہر جعفر خود کو ذہنی دباؤ کا شکار بھی ظاہر کرتا رہا ہے اور ایک موقع پر بولا کہ میرے ساتھ کھڑے ملزمان نے نور مقدم کو مارا ہے، مجھے بولنے کا موقع دیا جائے، اس نے جج عطا ربانی سے کہا کہ میں ایک فون کال کرنا چاہتا ہوں، مجھے اجازت دیں، میں اس کیس کو مضبوط کرنے کے لیے کال کرنا چاہتا ہوں۔

عدالت کے جج ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے ابتدا میں پولیس اہلکاروں کو ظاہر جعفر کو چپ کروانے کے لیے ہدایت کی لیکن پولیس اہلکاروں کی طرف سے روکنے کے بعد بھی ظاہر جعفر باز نہ آیا جس کے بعد جج عطا ربانی نے انہیں نظرانداز کرنا شروع کر دیا اور اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ ظاہر جعفر ہر چند لمحوں کے بعد براہ راست جج صاحب پلیز کہہ کر بات کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن اس کی کسی بات کا جواب نہ دیا گیا۔

اس دوران ظاہر جعفر نے اپنے والد سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے منہ پھیر لیا جب کہ اس کی والدہ عصمت آدم جی نے اس سے بات کی اور اس دوران لگاتار اسے انگلی کے اشارے سے نو نو کرتی رہیں۔

سماعت کے دوران ذاکر جعفر اور عصمت آدم کے وکیل رضوان عباسی نے ان پر فردِ جرم عائد کرنے کے خلاف دلائل دیے اور کہا کہ ان کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ان پر پولیس نے اعانتِ جرم کا الزام عائد کیا ہے۔

ذاکر جعفر کے وکیل نے دلائل دیے کہ دونوں افراد یہاں موجود ہی نہیں تھے لیکن ان پر لگائی جانے والی دفعات میں انہیں شریک ملزم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم عدالت نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف فردِ جرم عائد کر دی۔

پولیس نے اس کیس میں چالان پیش کرتے ہوئے تھیراپی ورکس نامی ادارے کے مالکان اور ملازمین کو بھی جرم میں شریک ٹھیرایا تھا جب کہ ظاہر جعفر کے گھر پر کام کرنے والے دو ملازمین کو بھی اس جرم کا شریک کار بتایا ہے۔

پولیس کے پاس اس کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیجز اور کال ڈیٹا ریکارڈر سمیت کئی فارنزک ثبوت موجود ہیں جن کی مدد سے پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوا سکتی ہے۔ ذاکر جعفر اورعصمت آدم جی کی اپیلیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی زیرِ التوا ہیں اور وہ اپنی ضمانت کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق سفارت کار شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کو ملزم ظاہر جعفر نے مبینہ طور پر 20 جولائی کی شام اسلام آباد میں اپنے گھر پر قتل کر دیا تھا۔

تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او محمد شاہد کے مطابق نور مقدم کو تیز دھار آلے کی مدد سے گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا۔

پولیس نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو جائے وقوعہ سے گرفتار کیا تھا جب کہ ان کے والدین کی گرفتاری 25 جولائی کو عمل میں آئی تھی۔

اس قتل کے بعد خواتین کی مختلف تنظیموں کی طرف سے بھرپور احتجاج کیا گیا اور ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اس کیس کے سامنے آنے پر پولیس کو تفتیش مکمل کر کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت کی تھی۔