نیٹو کی 'لینڈ کمانڈ' کے نئے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل جان نکلسن نے کہا ہے کہ ادارہ شمالی شام میں 'نو فلائی زون' قائم کرنے پر غور نہیں کر رہا، جس بات کا ترکی مطالبہ کرتا رہا ہے۔ ترکی کے خیال میں، ایسا کرنے سے، اُس کی جنوب مشرقی سرحدوں پر سکیورٹی کو درپیش خطرات ٹل جائیں گے اور انسانوں کی یلغار کے نتیجے میں ترکی پر پڑنے والے پناہ گزینوں کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
یہ بات نیٹو کے ایک اعلیٰ جنرل نے ترکی کے شہر ازمیر میں، رائٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتائی۔
ترکی میں نیٹو کی فوج کی دوسری بڑی نفری موجود ہے، اور ترکی 'لینڈ کمانڈ' کی میزبانی کے فرائض انجام دیتا ہے؛ جس پر نیٹو کے کام میں بہتری اور اس کے موئثر ہونے کا دارومدار ہے، اور اتحاد کی پیدل فوج کی تعیناتی کی کسی ضرورت کے لمحے میں، وقت بچ جاتا ہے۔
حالانکہ ترکی نے باضابطہ طور پر نیٹو سے 'نوفلائی زون' کا مطالبہ نہیں کیا۔ تاہم، ترکی نے کئی بار اس بات پر زور دیا ہے کہ اتحاد کے ممالک جنھیں شام میں محفوظ خطے کی تلاش کا معاملہ عزیز ہے، چاہیئے کہ وہ ایسا اقدام کریں، تاکہ شام سے ترکِ وطن کرکے ترکی میں داخل ہونے والے 16 لاکھ مہاجرین کا تبادلہ ممکن ہو۔
لیفٹیننٹ جنرل جان نکلسن کے بقول، 'نو فلائی زون پر انتہائی زیادہ رقوم خرچ آئیں گی۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے، جس پر ہم فی الاوقت دھیان دیں'۔
نیٹو 'لینڈ کمانڈ' کا صدر دفتر ازمیر کے ساحلی شہر میں واقع ہے۔
'محفوظ زون' سے متعلق ترکی کی درخواست، جس میں فضائی دفاع ایک اہم عنصر ہے، متعدد اتحادیوں کی نظر میں، زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔
فرانس کے وزیر خارجہ، لورے فیبس نے رواں ہفتے اس تجویز کی حمایت کی تھی۔ لیکن ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ 'اِس ضمن میں، ہمیں کئی افراد کو قائل کرنا ہوگا'۔
فوجی ماہرین کی رائے میں ایسے اقدام کے لیے ضروری ہے کہ یا تو حکومت شام کے ساتھ کوئی معاہدہ طے ہو ؛ یا پھر، شام کے فضائی دفاع کے جدید نظام کو ناکارہ بنا دیا جائے۔
ایسے عمل کی راہ میں یہ خطرہ لاحق ہے کہ مغربی ملک تین برس سے جاری شام کی لڑائی میں فریق بن جائیں گے؛ جس کا مطلب، صدر بشار الاسد کے اتحادی، روس اور ایران کو مشتعل کرنا ہوگا۔
معاملات گنجلک ہیں۔ امریکی فضائی کارروائی کی آڑ میں، اسد شام کے باغیوں کے خلاف اپنی فضائی طاقت استعمال کر رہا ہے؛ جب کہ وہ داعش کے گڑھ، رقعہ پر حملے کر رہا ہے؛ اور یوں، شام 'دولت اسلامیہ' کے ہاتھوں شامی فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لے رہا ہے۔
دراصل، 'نو فلائی زون' کی تجویز پر یک رائے نہ ہونا، اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے ماحول سے نمٹنے کے سلسلے میں، ترکی اور اُس کے مغربی اتحادیوں کے درمیان خیالات میں وسیع تر خلا اور نااتفاقی موجود ہے۔
ترکی اس بات کا خواہاں ہے کہ اُس کے دشمن، اسد کو اقتدار سے ہٹایا جائے؛ اور دولت اسلامیہ کے اِس سخت گیر سنی گروہ پر دھیان مرکوز کرنا، مرض کے علاج کی جگہ علامات سے الجھا رہنے کے مترادف ہے۔۔ یعنی، شام میں حکمرانی کی خلا کی کیفیت میں جاری لاقانونیت اور مظالم کو برداشت کیا جاتا رہے۔
امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے حالیہ دورہ ترکی کے دوران، دونوں فریق اپنے اپنے مخصوص مئوقف پر ڈٹے رہے، جب کہ دونوں کی پالیسیوں میں کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آئی۔
اس دورے میں، ایک امریکی اہل کار نے تسلیم کیا کہ ترکی کی سرحد کے ساتھ شام کی حکومت اور 'داعش' کے شدت پسندوں کی موجودگی ایک چیلنج سے کم نہیں۔ تاہم، اُنھوں نے متنبہ کیا کہ 'نو فلائی زون' کے جملوں کو دہرانا بے فائدہ ہے۔