جب ڈیبورا زلز ن سانس کی شدید بیماری کی وجہ سے اپنے13 دن کے بیٹے اینڈریاس کو برلن کے ایک اسپتال لے گئیں تو یہ جان کرانہیں جھٹکا لگاکہ اسپتال میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ طبی عملے نے ننھے بچے کے لیےبیڈ تلاش کرنے کی کوشش میں جرمن دارالحکومت اور ہمسایہ ریاست برینڈنبرگ کے دیگر اسپتالوں کو مسلسسل فون کیے۔
33 سالہ ماں نے کہا کہ آخر کار ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں ایک رات گزارنے کے بعد،ہمیں یہاں جگہ ملی ۔’ان کا بیٹا اب انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج ہے‘۔
یہ ننھا بچہ’ برونکائیلائٹس‘ سے لڑ رہا ہے، کیونکہ جرمنی کو ان دنوں شیرخوار بچوں میں سینے میں انفیکشن کے کیسز کی موسم سرما کی لہر کا سامنا ہے، جس سے اسپتالوں پر دباؤ پڑ رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کرونا وائرس کی وبا کے دو سال بعد جس میں بچوں میں چہرے پر ماسک یا شیلڈ پہننے جیسے بندوبست نے دنیا کے سب سے کم عمر افراد کو سانس کے وائرس کے خطرے سے بچایا تھا، اب متعدد یورپی ممالک برونکائلائٹس میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
2022 میں صورت حال خاص طور پر خراب ہے کیونکہ نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں کو پہلی بار سانس کے سنسیٹیئل وائرس (آر ایس وی) کا سامنا ہے، جو عام طور پر برونکائلائٹس کا سبب بنتا ہے۔
برلن کے سینٹ جوزف اسپتال میں جہاں اس بچے کا علاج کیا جا رہا تھا، بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی ٹیم، پہلے سے کہیں کم عملے کے ساتھ ، مریض بچوں کے اضافے کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسپتال کے شعبہ اطفال کی سربراہ بیٹرکس شمٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ مختلف عوامل کی بھرمار اس مسئلے کی وجہ ہے - ان کا کہنا تھا کہ ایک ہی وقت میں بیمار بچوں کی ایک ناقابل یقین تعداد اوربیماری سے متاثرو ان کی دیکھ بھال کرنے والے کرنے والےاور پھر عملے کی مسلسل کمی اس کی وجہ ہیں۔
’اخراجات میں بچت کی قیمت بچے ادا کرتے ہیں‘
سینٹ جوزف اسپتال میں عام طور پر بیمار بچوں کے لیے 80 بیڈز کی گنجائش ہے، لیکن عملے کی کمی کی وجہ سے فی الحال صرف 51 بستروں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بھی، بستروں کی تعداد گھٹانی پڑی ہے اور اس وقت وہاں پر صرف 18 بچوں کو رکھا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جیسا کہ اینڈریاس کے معاملے میں ہوا، طبی ماہرین کو اکثر یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس نئے مریضوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور انہیں دوسرے اسپتالوں میں کال کرنا پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے بیمار بچوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعےدوسرے علاقوں میں لے جانا پڑتا ہے۔
بیمار بچوں کی بڑی تعداد ہسپتال کے عملے کی کمی کے باعث متاثرہوئی ہے۔رابرٹ کوچ ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، جرمنی میں ،جس کی آبادی آٹھ کروڑ 40 لاکھ ہے، گزشتہ ہفتے 95 لاکھ افراد سانس کی بیماری سے متاثر ہوئے،جس میں ہر عمر کے گروپ شامل ہیں۔
یہ اعداد و شمار، 2017-18 میں فلو کی وبا کے عروج سے زیادہ ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مسئلے کی ایک وجہ صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری میں کمی ہے
شمٹ کا خیال ہے کہ لاگت میں کٹوتیوں کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ 63 سالہ شمٹ نے کہا کہ برسوں سے، ہم نے اپنے نظامِ صحت میں بچت کی ہے اور بچے سب سے پہلے قیمت ادا کرتے ہیں۔
جرمنی کے وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق، فی الحال جرمنی میں بچوں کے لیے اسپتالوں میں 18ہزار بستر ہیں، جب کہ 1995 میں یہ تعداد 25 ہزارتھی۔
شمٹ کے مطابق، جرمنی، اپنی عمر رسیدہ آبادی اور اپنے بہت سے یورپی پڑوسیوں کے مقابلے میں بچوں کے کم تعداد کے ساتھ، بچوں کی دیکھ بھال میں بہت کم سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچے کہ ووٹ نہیں دیتے اور ہم بچوں کے علاج سے پیسہ نہیں کماتے۔
نوجوان نسل کی طب کے شعبے میں کام کرنے میں کم دلچسپی:
ناقدین کا کہنا ہے کہ اخراجات میں کمی کی غرض سے صحت کی دیکھ بھال میں اصلاحات کرنا، خاص طور پر بچوں کے لیےایک ایسے وقت میں نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں، جب میڈیکل کا شعبہ نئے آنے والوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
شمٹ نے کہا کہ بہت سے ماہر اطفال آنے والے سالوں میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔ شمٹ خود بھی اپنا عہدہ چھوڑنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نوجوان نسل ایسا کام کرنا چاہتی ہے جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ بھی وقت گزار سکیں۔ جو ایک ایسے پیشہ میں بڑا چیلنج ہےجہاں اکثر اوقات زیادہ گھنٹے اور ایسے اوقات میں کام کرنا پڑتا ہے جس کا پہلے سے علم نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں، انہیں کم معاوضہ ملتا ہے۔ وہ بہت کام کرتے ہیں۔ راتوں کو، اور ویک اینڈز پربھی انہیں کامن کرنا پڑتا ہے۔"
یہ مضمون ایجنسی فرانس پریس کی رپورٹ پر مبنی ہے۔