قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل کے تحت بچوں پر جسمانی تشدد کے مرتکب شخص کو ایک سال قید اور 50 ہزار روپیہ جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کراچی —
قومی اسمبلی کے منگل کو ہونے والے اجلاس کے دوران پاکستان میں بچوں پر ہونےوالے جسمانی تشدد اور سزا دینے کی ممانعت کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ہے۔
بل میں بچوں پر تشدد کرنےوالے کسی بھی شخص کوایک سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا مختص کی گئی ہے۔بچے پر تشدد یا جسمانی سزا دینےوالے شخص کے خلاف والدین یا بچہ بذات خود مجسٹریٹ کو درخواست جمع بھی کرواسکتا ہے۔
بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی اسپارک نامی تنظیم ’سوسائٹی فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس‘کے ریجنل ڈائریکٹر جاوید اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ" قومی اسمبلی میں بچوں کو جسمانی سزا کا مرتکب کرنے اور تشدد کی روک تھام کیلئے وفاقی سطح پر تو بل پاس کردیا گیا ہے مگر صوبائی سطح پر بھی ایسے قوانین مرتب کئے جائیں تاکہ صوبائی حکومت کے تحت ان قوانین پر عملدرآمد ہوسکے اور بچوں کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے ان کو ایسی سزا کا مرتکب نہ ٹھہرایا جائے‘‘۔
جسمانی تشدد کے حوالے سے جاوید اقبال کہتے ہیں کہ" جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ بچوں پر نفسیاتی تشدد کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں جس سے بچوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور بچوں کے معصوم ذہنوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں"۔
پاکستان میں بچوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا اور مارپیٹ کرنا ایک عام بات سمجھی جاتی ہے
۔ بچوں پر تشدداور مارپیٹ گھروں تک محدود نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی ڈنڈے اور ہاتھوں سے بچوں کی پٹائی کرنا اور سزائیں دینا معمول کی بات ہےجس کے باعث ہزاروں بچے اسکول چھوڑدیتے ہیں اور ان کا تعلیمی کیریئر برباد ہوجاتا ہے۔
گھروں میں بھی ماں باپ کی جانب سے بچوں کو سدھارنے کیلئے مارپیٹ کا سہارہ لیاجاتا ہے۔ غیر ارادی طور پر ماں باپ مار پیٹ کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں جس سے اکثر و بیشتر مسائل حل ہونے کے بجائےگھمبیر ہوجاتے ہیں، زیادہ مار پیٹ اور سزاوں کے باعث اکثر بچے گھر بار چھوڑدیتے ہیں اور سڑکوں پر رہتے ہیں یا پھر جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
بچوں پر تشدد کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بچوں کے ماہر نفسیات رانا عرفان کا کہنا ہے کہ سزا کے مثبت اور منفی طریقے ہوتے ہیں۔’’ ایک طریقہ مار پیٹ اور جسمانی سزا کا ہے جبکہ دوسری جانب بچوں کو ذہنی طرح سے انفورسمنٹ کا طریقہ ہے۔‘‘
رانا عرفان اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ’’مثال کے طور پر کہنا ماننے اور ہوم ورک نہ کرنے پر بچے کی من پسند چیز یا پھر کھانا نہ دینے کی دھمکی دی جائے یا یہ کہا جائے اگر تم نے فلاں کام نہ کیا تو تمھیں وہ چیز نہیں دی جائیگی ایک دو بار کرنے سے بچہ صحیح راہ پر آجاتا ہے۔ ‘‘
جبکہ دوسری جانب جسمانی سزا اور مارپیٹ سے بچہ ڈھیٹ بن جاتا ہے اور والدین کو دوست سمجھنے کی بجائے دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ بچہ ماں باپ کے ساتھ خوشگوار طریقے سے نہیں رہ پاتا اور گھٹن محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔
رانا عرفان مزید بتاتے ہیں کہ دنیا بھر کے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ بچے کی ابتدائی دور کی تربیت اور نشونما اس کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار اداکرتی ہے۔ اسی طرح اگر والدین یا نگران کی جانب سے تشدد کا طریقہ اپنایا جائے یا سزا دینے کا عمل جاری رکھاجائے تو بڑے ہوجانے کے بعد بھی اس بچے کے ذہن سے تلخ اور منفی یادیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔جس سے زندگی متاثر ہوتی ہے۔
بل میں بچوں پر تشدد کرنےوالے کسی بھی شخص کوایک سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا مختص کی گئی ہے۔بچے پر تشدد یا جسمانی سزا دینےوالے شخص کے خلاف والدین یا بچہ بذات خود مجسٹریٹ کو درخواست جمع بھی کرواسکتا ہے۔
بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی اسپارک نامی تنظیم ’سوسائٹی فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس‘کے ریجنل ڈائریکٹر جاوید اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ" قومی اسمبلی میں بچوں کو جسمانی سزا کا مرتکب کرنے اور تشدد کی روک تھام کیلئے وفاقی سطح پر تو بل پاس کردیا گیا ہے مگر صوبائی سطح پر بھی ایسے قوانین مرتب کئے جائیں تاکہ صوبائی حکومت کے تحت ان قوانین پر عملدرآمد ہوسکے اور بچوں کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے ان کو ایسی سزا کا مرتکب نہ ٹھہرایا جائے‘‘۔
جسمانی تشدد کے حوالے سے جاوید اقبال کہتے ہیں کہ" جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ بچوں پر نفسیاتی تشدد کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں جس سے بچوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور بچوں کے معصوم ذہنوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں"۔
پاکستان میں بچوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا اور مارپیٹ کرنا ایک عام بات سمجھی جاتی ہے
گھروں میں بھی ماں باپ کی جانب سے بچوں کو سدھارنے کیلئے مارپیٹ کا سہارہ لیاجاتا ہے۔ غیر ارادی طور پر ماں باپ مار پیٹ کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں جس سے اکثر و بیشتر مسائل حل ہونے کے بجائےگھمبیر ہوجاتے ہیں، زیادہ مار پیٹ اور سزاوں کے باعث اکثر بچے گھر بار چھوڑدیتے ہیں اور سڑکوں پر رہتے ہیں یا پھر جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
بچوں پر تشدد کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بچوں کے ماہر نفسیات رانا عرفان کا کہنا ہے کہ سزا کے مثبت اور منفی طریقے ہوتے ہیں۔’’ ایک طریقہ مار پیٹ اور جسمانی سزا کا ہے جبکہ دوسری جانب بچوں کو ذہنی طرح سے انفورسمنٹ کا طریقہ ہے۔‘‘
رانا عرفان اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ’’مثال کے طور پر کہنا ماننے اور ہوم ورک نہ کرنے پر بچے کی من پسند چیز یا پھر کھانا نہ دینے کی دھمکی دی جائے یا یہ کہا جائے اگر تم نے فلاں کام نہ کیا تو تمھیں وہ چیز نہیں دی جائیگی ایک دو بار کرنے سے بچہ صحیح راہ پر آجاتا ہے۔ ‘‘
جبکہ دوسری جانب جسمانی سزا اور مارپیٹ سے بچہ ڈھیٹ بن جاتا ہے اور والدین کو دوست سمجھنے کی بجائے دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ بچہ ماں باپ کے ساتھ خوشگوار طریقے سے نہیں رہ پاتا اور گھٹن محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔
رانا عرفان مزید بتاتے ہیں کہ دنیا بھر کے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ بچے کی ابتدائی دور کی تربیت اور نشونما اس کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار اداکرتی ہے۔ اسی طرح اگر والدین یا نگران کی جانب سے تشدد کا طریقہ اپنایا جائے یا سزا دینے کا عمل جاری رکھاجائے تو بڑے ہوجانے کے بعد بھی اس بچے کے ذہن سے تلخ اور منفی یادیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔جس سے زندگی متاثر ہوتی ہے۔