جوہری مذاکرات، جامع سمجھوتے کی ضمانت نہیں: ایشٹن

اُنھوں نے کہا کہ ایرانی حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں باہمی تعلقات، علاقائی تنازعات، انسانی حقوق اور 18 مارچ کو نیوکلیئر بات چیت کی بحالی پر دھیان مرکوز رہے گا
یورپی یونین میں خارجہ پالیسی کی سربراہ، کیتھرین ایشٹن نے کہا ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اِسی ماہ کے اواخر میں جب ایران اور مغرب کے درمیان جوہری مذاکرات دوبارہ شروع ہوں، تو اِن کا نتیجہ کسی جامع سمجھوتے کی صورت میں نکلے۔

ایشٹن نے یہ بات اتوار کے روز ایرانی دارالحکومت میں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ہمراہ گفتگو کے دوران کہی۔

اُنھوں نے کہا کہ ایرانی حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں باہمی تعلقات، علاقائی تنازعات، انسانی حقوق اور 18 مارچ کو نیوکلیئر بات چیت کی بحالی پر دھیان مرکوز رہے گا۔

نومبر میں ہونے والے ایک عبوری سمجھوتے کے تحت، ایران چھ ماہ کے لیے یورینئیم کی افزودگی کو محدود کرنے پر رضامند ہوا تھا، جس کے عوض مغرب کی طرف سے عائد تعزیرات میں نرمی برتی گئی، جِن کے نتیجے میں ایران کی معیشت کھوکھلی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس سمجھوتے پر عمل درآمد 20 جنوری سے شروع ہوا۔

مغربی ممالک ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی جاری تحقیق کے پیچھے دراصل جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی کوششیں کر رہا ہے، جب کہ ایران نے بارہا کہا ہے کہ اُس کا جوہری کام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

اتوار کے روز ایشٹن ایک جامع سجھوتے تک پہنچے کے لیے ہونے والے مذاکرات کو ’مشکل اور چیلنج‘ کی نوعیت کا دور قرار دیا۔

ظریف نے کہا کہ ایران کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے پُرعزم ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں ایران نے خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اُنھوں نے مغرب سے اُسی جذبے کا مطالبہ کیا، اور، بقول اُن کے، ’چار یا پانچ ماہ کے اندر اندر‘ یہ معاہدہ طے پا سکتا ہے۔


عبوری سمجھوتے کی رو سے، ایران نے اس بات سے اتفاق کیا کہ وہ یورینئیم کی افزودگی میں کمی لائے گا؛ اور اپنے 20 فی صد شرح کے افزودہ یورینئیم کے ذخیرے کو آکسائیڈ میں تبدیل کر دے گا۔

اِن مذاکرات میں ایران کے ساتھ ’پی ون‘ ممالک، یعنی برطانیہ، فرانس، امریکہ، روس، چین اور جرمنی شریک ہوں گے۔