وائٹ ہاؤس نے بدھ کے روز کہا ہے کہ امریکہ نے حکومتِ فلپائن کی جانب سے دونوں ملکوں کے مابین فوجی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی کے حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی بیان نہیں دیا۔
وائٹ ہاؤس کا یہ بیان اُسی روز سامنے آیا ہے جب فلپائن کے صدر روڈیگو ڈوٹرٹے نے دو دِن کے اندر دوسری بار امریکہ کے ساتھ فوجی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دہرائی ہے۔
ڈوٹرٹے نے یہ بات ٹوکیو میں ’معاشی فورم‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جہاں وہ امریکہ کے ایک کلیدی اتحادی جاپان کے سہ روزہ سرکاری دورے پر ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اگلے دو برس کے دوران فلپائن میں ’’غیر ملکی فوجوں کی موجودگی باقی نہ رہے‘‘ اُس صورت میں بھی کہ اُن کے ملک کو ’’سمجھوتوں پر نظرثانی کرنی پڑے یا اُنھیں توڑنا پڑے‘‘۔
منداناؤ کے جنوبی جزیرے پر امریکی فوجیوں کی مختصر تعداد تعینات ہے جس کا کام داخلی طور پر سر اٹھانے والی مذہبی بغاوت کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مدد دی جاسکے۔
بعدازاں، جاپانی وزیر اعظم شِنزو آبے کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران، دونوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ایشیا کے استحکام کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ لیکن، اس میں امریکہ کے ساتھ اتحاد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ جاپان کی کابینہ کے معاون سکریٹری کوچی ہگواڈا نے بعد میں بتایا کہ دونوں ملک امریکی اتحاد کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن وہ اسے تحریر کرنا ضروری خیال نہیں کرتے۔
ڈوٹرٹے جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے سے ملاقات کریں گے، جنھوں نے امریکہ کے ساتھ جاپان کے مضبوط رشتوں کی نشاندہی کی ہے، تاکہ بحیرہٴ جنوبی چین میں چین کی بڑھتی ہوئی جارحانہ سرگرمیوں کا توڑ تلاش کیا جا سکے۔
اکہتر برس کے اکھڑ مزاج، ڈوٹرٹے امریکہ کے خلاف سخت گیر بیانات اور دھمکیاں دیتے رہے ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ 30 جون سے، جب اُنھوں نے عہدہ سنبھالا، منشیات کے انسداد کی مہم پر نکتہ چینی کی گئی ہے، جس میں اب تک تقریباً 4000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گذشتہ ہفتے چین کے سرکاری دورے کے دوران اُنھوں نے امریکہ کے ساتھ تمام مراسم منقطع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ تاہم، بعد میں اُنھوں نے اپنا بیان واپس لے لیا۔
بدھ کے اجلاس میں فلپائن کے رہنما نے شرکا کو اس بات کا یقین دلایا کہ وہ چین کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات کے خواہاں ہیں، جس میں فوجی تعلقات شامل نہیں۔
بعدازاں، فلپائن کے خارجہ امور کے سکریٹری پرفیکٹو یاسے نے صدر ڈوٹرٹے کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ فلپائن امریکہ کے ساتھ تمام سمجھوتوں کی حرمت کے تقاضے پورے کرے گا، چونکہ ’’اب بھی ہمارے
قومی مفادات یکساں ہیں‘‘۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان جان کِربی نے کہا ہے کہ ڈوٹرٹے کے بیانات کے نتیجے میں امریکہ فلپائن تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
بقول اُن کے، ’’ہم نے یہ بیانات دیکھے ہیں۔ تعلقات کے اعتبار سے یہ حیران کُن، انتہائی عجیب ہیں۔ یہ تعلقات ابھی جاری ہیں۔ اور، ہم نے وہ بیان بازی دیکھی ہے جس میں خود صدر اور اُن کی کابینہ کے اہل کاروں نے اپنے ہی کچھ کلمات کی وضاحت کی ہے‘‘۔
ایشئن سوسائٹی کے تجزیہ کار، اسٹیفن روڈ نے منیلا میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈوٹرٹے کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ چند امور کے حوالے سے مؤقف میں تبدیلی آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘‘۔
فلپائن کی پانچ فوجی کیمپوں میں امریکی فوجی تعینات ہیں، جس سے متعلق سکیورٹی کے سمجھوتوں پر اُس وقت دستخط ہوئے تھے جب ڈوٹرٹے ابھی صدر نہیں بنے تھے، جن کا مقصد ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی جارحیت سے بچاؤ ہے۔