کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے ’کے الیکٹرک‘ نے اعلان کیا ہے کہ کراچی کا اب کوئی بھی علاقہ ایسا نہیں رہے گا، جہاں لوڈ شیڈنگ نہ ہو۔اس بات کا اعلان ترجمان کے الیکٹرک نے پیر کے روز کیا۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ کراچی میں شدید گرمی کی وجہ سے بجلی کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے اور اس لوڈ کو کنٹرول کرنے کے لئے اب ان علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ ہوگی جو اب تک مستثنیٰ تھے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ اس وقت بجلی کی اوسطاً طلب تین ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے ۔
ترجمان نے شہریوں سے یہ اپیل بھی کی کہ بجلی کی بچت کی خاطر وہ غیر ضروری آلات کا استعمال نہ کریں۔
تین دن میں 20 ہزار اے سی فروخت
کراچی میں گزشتہ ہفتے ریکارڈ توڑ گرمی پڑی جس کے سبب پیر تک تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ شدید ترین گرمی سے بچنے کے لئے عوام نے تین دنوں میں 20ہزار سے زائد اے سی یونٹ خریدے جن کی مالیت ایک ارب روپے بنتی ہے۔
وائس آف امریکہ نے بڑھتی ہوئی اے سی کی مانگ پر رپورٹ کی تیاری کی غرض سے تین دنوں تک شہر کی مختلف مارکیٹس کا دورہ کیا۔ ان میں عبداللہ ہارون روڈ صدر، عائشہ منزل اور نارتھ ناظم آباد کی مارکیٹس شامل ہیں۔ شہر میں گرمی نے گزشتہ ہفتے کو اپنا زور دکھانا شروع کیا جبکہ اتوار اور پیر کو ریکارڈ توڑ گرمی پڑی۔
قیمتوں میں من چاہا اضافہ
ان دودنوں میں ایک ٹن کا اے سی یونٹ خواہ وہ کسی بھی کمپنی کا ہو 33ہزار سے 40ہزار روپے تک کی رینج میں فروخت ہوتا دیکھا گیا، جبکہ اتوار کی شام کو عبداللہ ہارون روڈ پر واقع دکانوں پر بھیڑ کو دیکھ کر پہلی نظر میں یوں لگتا تھا جیسے مفت اے تقسیم ہو رہے ہوں۔ پانچ بجے سے چھ بجے کے درمیان مارکیٹ کی جو دکانیں اتوار ہونے کے باوجود بھی کھلی تھیں وہ جبراًْ بند کردی گئیں کیوں کہ خریداروں کا غیر معمولی رش بڑھتا چلا جا رہا تھا اور دکانداروں کے لئے انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہورہا تھا۔
تاجر برادری بھی حیران
کراچی الیکٹرانکس اینڈ اسمال ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدررضوان عرفان کے مطابق انھوں نے شہر میں اسپلٹ اے سی کی اتنے بڑے پیمانے پر فروخت زندگی میں نہیں دیکھی۔
بھیڑ کا فائدہ اگلے دن یوں اٹھایا گیا کہ تمام کمپینز کے اے سی شارکٹ ہوگئے۔ لہذا، قیمتوں میں 20، 20ہزار روپے کا اضافہ کر دیا گیا، جبکہ اے سی فٹ کرنے والے کاریگروں وسیم، سجاد، علی اور دیگر کئی افراد نے بتایا کہ انہیں رات کو بارہ بارہ بجے تک کام کرنے کے باوجود لوگوں کی طرف سے بلاوے ختم نہیں ہوئے۔
اندیکھا خدشہ۔۔۔؟
اس تمام صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ 20ہزار اے سی یونٹس لگنے کے بعد بجلی کا بحران شدید ترین ہوجائے گا اور چونکہ پاکستان میں بجلی کے متبادل ذرائع مقبول نہیں۔ لہذا، خدشہ یہ ہے کہ کہیں روشنوں کا شہر اندھیروں کے شہر میں نہ بدل جائے۔