امریکہ: سفری پابندی کے صدارتی حکم نامے کی معطلی برقرار

فائل

امریکہ کی ایک اور عدالت نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے پر بندش جاری رکھنے کی تائید میں فیصلہ دیا ہے، جس میں چھ زیادہ تر مسلمان ملکوں پر سفر کی پابندی عائد کی گئی تھی۔

سان فرانسسکو کی ’نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز‘ نے پیر کے روز ٹرمپ کی عبوری پابندی کے خلاف فیصلہ سنایا، اس بنیاد پر کہ صدر نے اپنے دو مارچ کے انتظامی حکم نامے میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا؛ جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ملک کو محفوظ بنانے کے لیے غیر ملکی دہشت گردوں کا امریکہ میں داخلہ بند کیا جاتا ہے‘‘۔

ججوں کے تین رُکنی پپینل نے کہا ہے کہ ’امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ (آئی این اے)‘ صدر کو وسیع تر اختیارات دیتا ہے، تاکہ امریکہ میں داخلے پر کنٹرول کیا جاسکے اور امریکی سلامتی کو محفوظ بنایا جا سکے، ’’صدر کی سطح پر بھی، امیگریشن فرد واحد کا معاملہ نہیں ہے‘‘۔

پیر کے روز آنے والے فیصلے سے قبل 25 مئی کو ورجینیا کی ’فورٹھ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز‘ بھی اِسی طرح کا فیصلہ سنا چکی ہے، جس میں میری لینڈ کے جج کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا، جس میں حکم نامے کے چند حصوں پر پابندی لگائی گئی تھی۔ تاہم، دونوں عدالتوں نے بالکل ہی مختلف توجیھات پیش کی ہیں۔

فورتھ سرکٹ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات اور ٹوئیٹس پر کافی توجہ مبذول کی، اِس بات کا اشارہ دیتے ہوئے کہ اُن کا حکم نامہ مسلمانوں پر پابندی کے مترادف ہے، جس معاملے کی صدر اپنی انتخابی مہم کے دوران وکالت کرتے رہے تھے۔

تاہم، فورتھ سرکٹ نے حکم نامے کے اُس حصے پر فیصلہ دیا تھا، جس میں 90 دِن کے لیے چھ ملکوں پر سفری پابندی لگائی گئی تھی۔

لیکن، نائنتھ سرکٹ نے وسیع تر فیصلہ سنایا ہے اور امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ (آئی این اے) پر بھی طبع آزمائی کی ہے، جس کے لیے عدالت نے کہا ہے کہ سفری پابندی کی حمایت میں ناکافی معقول جواز پیش کیا گیا ہے۔