شمال مشرقی نائجیریا میں بوکو حرام کے شدت پسندوں کے ہاتھوں اسکول کی بچیوں کے اجتماعی اغوا کے بدنام واقعے کا سراغ ملنے کے بعد ایک لڑکی کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ یہ بات بدھ کے روز فوجی ترجمان اور محافظ جھتے کے سربراہ نے بتائی ہے۔
بازیاب ہونے والی یہ پہلی بچی ہے۔ اپریل، سنہ 2014 میں چبوک کے قصبے میں مذہبی شدت پسند گروپ نے ایک سرکاری ثانوی اسکول پر دھاوا بول کر تقریباً 300 لڑکیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اِن میں سے متعدد اغوا کے فوری بعد جان بچانے میں کامیاب ہوگئی تھیں، جب کہ 200 سے زائد اب بھی لاپتا ہیں۔
لڑکی کی بازیابی کے بارے میں تفصیل واضح نہیں۔ فوجی ترجمان سنی عثمان نے بتایا ہے کہ نائجیریا کے فوجیوں نے بالے نامی دیہات سے اس بچی کو بازیاب کرایا، جو دمبوئا کے قصبے کے قریب واقع ہے۔
ابوکو غازی، چبوک میں محافظ جھتے کے رہنما ہیں، جنھوں نے بچاؤ کی کارروائی کا سہرا اپنے سر باندھا ہے۔ جتھے کو اس لیے تشکیل دیا گیا تھا تاکہ بوکو حرام کے ایسے اوچھے حربوں سے دفاع ممکن ہو۔
اُنھوں نے بتایا کہ جب شدت پسندوں کے ایک کیمپ پر گھات لگا کر کارروائی کی گئی تو جتھے کے محافظوں کی نظر اس لڑکی پر پڑی جسے بچا لیا گیا۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ’’ایسے میں جب ہم گھات لگائے بیٹھے تھے، وہ (شدت پسند) ہمارے سامنے آگئے‘‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ یہ لڑکی سمبیسا جنگل کے قریب سے برآمد ہوئی، جو شدت پسند گروپ کا مضبوط ٹھکانہ ہے جہاں اغوا کے بعد اسکول کی بچیوں کو لے جایا گیا تھا۔
غازی کےبقول، ’’بچی نے ہمیں بتایا کہ دوسری لڑکیاں سمبیسا ہی میں ہیں‘‘۔لیکن، غازی نے کہا کہ لڑکی نے ہمیں بتایا ہے کہ حراست کے دوران چھ لڑکیاں دم توڑ گئیں۔
لڑکی کا نام واضح نہیں۔ فوج نے اُن کی شناخت فلماتا مبالا بتایا، لیکن غازی نے اُن کا نام آمنہ علی بتایا۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کی والدہ نے اُن کی شناخت کر لی ہے۔
شمالی نائجیریا میں گذشتہ سات برس کے دوران یہ شدت پسند گروپ سخت گیر اسلامی شریعت نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دوران، بوکو حرام نے شہریوں کو قتل کیا، دیہات کو نذر آتش کیا گیا اور اغوا کی کئی ایک کارروائیاں ہوئیں۔ 20000 سے زائد افراد کو ہلاک کیا گیا، جب کہ 20 لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
تاہم، چبوک کا اغوا کا معاملہ سنگین ترین جرم کی داستان ہے۔
اس واقعے پر نائجیریا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، جب کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ’’بچیوں کو بازیاب کرایا جائے‘‘۔
یرغمال بنائے جانے کے بعد، بوکو حرام نے ایک وڈیو جاری کی جس میں لڑکیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ گذشتہ ماہ، ’سی این این‘ نے ایک وڈیو کا پتا لگایا جسے لڑکیوں کی رہائی کے لیے کیے گئے مذاکرات کے دوران دکھایا گیا تھا، جس میں یرغمال بننے والی 15 لڑکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
افواہوں اور جھوٹے انتباہ کے بعد بھی بدھ کے روز تک کسی مزید بچی کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔