پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طالب علم رہنما رہ چکے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی۔ مبصرین کہتے ہیں کہ انھوں نے سیاست کی اس نرسری کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیا الحق کے بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔
اس سلسلے میں ممتاز کالم نگار اور پی ایس ایف کے سابق رہنما ندیم فاروق پراچہ سے خصوصی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سوال: جب آپ کالج یا یونیورسٹی پہنچے تو اس وقت کون سی طلبہ تنظیمیں وہاں موجود تھیں اور آپ کس سے متاثر ہوئے؟
ندیم فاروق پراچہ: میرے زمانے میں یعنی کے 80ء کی دہائی کے وسط میں سب سے بڑی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ تھی۔ لیفٹ کی کئی تنظیمیں تھیں۔ لیفٹ لبرل پیپلز پارٹی کی اسٹوڈنٹ ونگ پی ایس ایف یعنی پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی۔ کراچی یونیورسٹی میں یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ تھی جو بائیں بازو کی کئی تنظیموں کا اتحاد تھا۔ اس میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تھی، پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی، اور بھی کئی تھیں۔ اے پی ایم ایس او یعنی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن بھی تھی لیکن اس وقت زیادہ بااثر نہیں تھی۔
سوال: این ایس ایف نہیں تھی؟
ندیم فاروق پراچہ: این ایس ایف تھی لیکن نام کی رہ گئی تھی۔ برا حال تھا اور تین چار دھڑے ہوچکے تھے۔ یوں سمجھیں کہ 70ء کے عشرے میں این ایس ایف ختم ہوگئی تھی۔
سوال: آپ نے کون سی تنظیم میں شمولیت اختیار کی؟
ندیم فاروق پراچہ: میں نے پی ایس ایف کو جوائن کیا۔ میں نے اپنے کالج سینٹ پیٹرکس میں اپنی تنظیم بھی بنائی کیونکہ سیاسی جماعتوں کی طلبہ تنظیمیں ان کے زیر اثر رہتی ہیں۔ لیکن بات بنی نہیں اور میں دوبارہ پی ایس ایف میں آگیا۔ میں اپنے کالج میں اس کا صدر تھا۔ یونیورسٹی پہنچا تو وہاں بھی پی ایس ایف کے ساتھ رہا۔ میں تعلیم مکمل نہیں کرسکا کیونکہ سیاست کو وقت دیا۔ اس وقت تک کراچی کی سیاست اور اسٹوڈنٹس پولیٹکس کا حال بہت خراب ہوگیا تھا۔ میں 1989 کی بات کررہا ہوں۔ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت تھی اور کراچی میں بہت تشدد ہوا۔ خاص طور پر پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس او کی بہت لڑائی ہوئی۔ اس وقت تک اے پی ایم ایس او نے کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا زور ختم کردیا تھا۔
سوال: آپ کی کن طالب علم رہنماؤں سے ملاقاتیں رہیں؟
ندیم فاروق پراچہ: اس وقت نجیب مشہور تھا۔ وہ پی ایس ایف کا تھا۔ وہ 1990ء میں مارا گیا تھا۔ اے پی ایم ایس او کے لڑکے مشہور تھے۔ میرے ساتھ کئی ایسے تھے جو بعد میں صحافت میں آگئے اور اب بھی ہیں۔ میں بھی صحافت میں آگیا۔ ہم پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم میں تھے اس لیے ہمیں بلاول ہاؤس جانا پڑتا تھا۔ ان دنوں ہماری بینظیر سے ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ طلبہ کے معاملات نصرت بھٹو دیکھتی تھیں۔ میری ان سے ملاقاتیں رہیں۔ بینظیر سے دو ملاقاتیں بعد میں بطور صحافی ہوئیں، جب وہ دوسری بار وزیراعظم بنی تھیں۔
سوال: آپ نے طلبہ تنظیموں کے لڑائی جھگڑے اور تشدد کے واقعات دوسروں سے زیادہ دیکھے ہوں گے؟
ندیم فاروق پراچہ: طلبہ تنظیموں کی مار دھاڑ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا لگنے کے بعد شروع ہوئی۔ افغان جنگ کی وجہ سے اسلحہ بہت آگیا۔ سعودی عرب کے پیسوں سے افغانوں کے لیے امریکی ہتھیار آرہے تھے۔ اسلحہ کراچی بندرگاہ پر اترتا تھا تو کرپشن کی وجہ سے دوسری اشیا کی طرح نکل جاتا تھا۔ میں نے پہلی بار دیکھا کہ کراچی میں کھلے عام اسلحہ مل رہا تھا۔
کراچی یونیورسٹی میں 1979 میں پہلی بار اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے فائرنگ کی۔ ایک دو سال بعد دوسری تنظیموں کے ہاتھ بھی اسلحہ آگیا۔ پی ایس ایف نے خود کو مسلح کرلیا۔ اسلام اللہ ٹیپو کافی بڑا جنگجو بن گیا۔ طلبہ تنظیمیں آزاد نہیں ہوتی تھیں۔ ان کا کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ تعلق ہوتا تھا۔ وہ انھیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ضیا الحق دور میں کلاشنکوف کلچر آیا تو جس کے پاس ہتھیار نہ ہو، اس کی بات کوئی نہیں سنتا تھا۔
سوال: اسلام اللہ ٹیپو ہائی جیکنگ کیس کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ کیا آپ کبھی ان سے ملے؟
ندیم فاروق پراچہ: ٹیپو مجھ سے کافی سینئر تھا۔ جب وہ یونیورسٹی میں تھا، تب میں اسکول ہی میں تھا۔ وہ 1984 میں مارا گیا۔ میں اس وقت فرسٹ ایئر میں تھا۔ ہاں نجیب سے ملاقات رہتی تھی۔ 1988ء کے الیکشن کے دوران زیادہ تعلق رہا۔ اس وقت پی ایس ایف میں دو دھڑے تھے۔ بینظیر ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنانا چاہتی تھیں۔ میں اس کے حامی اور نجیب مخالف دھڑے میں تھا۔ بعد میں تشدد بڑھ گیا تو میں نے پی ایس ایف کو خیرباد کہہ دیا۔ اس وقت تک طلبہ سیاست میں نہ کوئی نظریات باقی بچے تھے اور نہ جمہوریت رہی تھی۔ طلبہ تنظیموں کو ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو لڑسکیں، بندوق چلاسکیں، بدمعاشی کرسکیں۔
سوال: ماضی کے طالب علم رہنما یہ نہیں مانتے کہ ان کے دور میں طلبہ سیاست کی وجہ سے تعلیم کا ہرج ہوتا تھا۔ لیکن شاید آپ کے دور میں تو ہوا ؟
ندیم فاروق پراچہ: جی ہاں، ہرج ہوا اور بہت ہوا۔ لیکن اس کے عوامل مختلف تھے۔ نیشنلائزیشن کے بعد تعلیم کا حال خراب ہونا شروع ہوچکا تھا۔ میرے والد پیپلزپارٹی میں تھے اور انھیں ضیا دور میں بلیک لسٹ کردیا گیا تھا۔ میں اس لیے تعلیم کے لیے بیرون ملک نہیں جاسکا حالانکہ میرے کافی دوست گئے۔ میں پرائیویٹ اسکول سے گورنمنٹ کالج پہنچا اور میری بہترین تعلیم اور سماجی طور پر تربیت وہیں ہوئی۔ نیشنلائزیشن کے بعد فیس بہت کم ہوگئی، شاید پورے سال کے 190 روپے، لیکن اساتذہ کی دلچسپی ختم ہوگئی۔ ان کی تنخواہیں کم تھیں۔ بعض اوقات احساس ہوتا تھا کہ مجھے اساتذہ سے زیادہ علم ہے۔ امتحانات میں نقل ہونے لگی۔ مجموعی طور پر تعلیم کا معیار گرگیا تھا اس لیے طلبہ سیاست کو سارا الزام دینا مناسب نہیں۔ یہ ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن دوسرے عوامل زیادہ تھے۔
سرکاری کالج میں سماج اور سیاست کے بارے میں تربیت مل جاتی ہے کہ معاشرہ کیسے چلتا ہے، عوام مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، کالج میں ہر طبقے اور نسل کا طالب علم مل جاتا تھا۔
سوال: کیا آپ کبھی طلبہ سیاست کی وجہ سے گرفتار ہوئے؟
ندیم فاروق پراچہ: ہم سب گرفتار ہوتے تھے۔ اس زمانے میں گرفتار ہونا بڑی بات نہیں تھی۔ میں دو بار گرفتار ہوا تھا۔ ایک بار 1984 میں، جب ضیا الحق نے طلبہ یونینز پر پابندی لگائی اور طلبہ نے اس کے خلاف کئی ماہ تک مہم چلائی۔ دوسری بار 1986 میں لڑائی جھگڑے کے بعد گرفتار ہوا تھا۔ اس زمانے میں مایوسی بہت تھی۔ اظہار کے تمام ذرائع بند تھے۔ ٹوئیٹر فیس بک ہوتے نہیں تھے۔ ہر ذریعہ حکومت کے کنٹرول میں تھا۔ میں دونوں بار دس دس گھنٹوں بعد تھانے سے نکل آیا لیکن سب اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ 1984 میں ہمارے کالج کے بیس بائیس لڑکے پکڑے گئے۔ ان میں سے چھ سات چھٹ گئے لیکن باقی کا پتا نہیں چلا۔ 1988 میں بینظیر بھٹو الیکشن جیتیں اور انھوں نے سیاسی قیدیوں کو رہا کروایا۔ ٹی وی پر خبر چلی تو ان میں مجھے وہ لڑکے دکھائی دیے جو 1984 میں گرفتار ہوئے تھے۔
ان جیسے اسیروں کے خلاف مقدمہ نہیں چلتا تھا۔ ان کے والدین کو ان کے بارے میں علم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ اس طرح کے اسیر بعد میں رہا ہوگئے لیکن ان کے اندر اس قدر غصہ بھرچکا تھا کہ وہ انتہاپسندی کا شکار ہوگئے۔ میں ایسے لڑکوں کو جانتا ہوں جنھوں نے جیل سے نکلنے کے بعد پیپلزپارٹی چھوڑی اور سندھی قوم پرست جماعت میں شامل ہوگئے یا بلوچستان جاکر لڑنا شروع کردیا۔ حد یہ کہ کئی لڑکے مذہبی انتہاپسند بن گئے۔
سوال: آج کا نوجوان بھی سیاست میں دلچسپی لے رہا ہے لیکن تربیت گاہیں موجود نہیں۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی نہ لگتی تو کیا آج حالات مختلف ہوتے؟
ندیم فاروق پراچہ: میں نے اس بارے میں تحقیق کی ہے اور مقالہ بھی لکھا ہے۔ دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ طلبہ سیاست کا معیار 1970ء کی دہائی کے وسط تک بہت بہتر تھا۔ تعلیم کا نظام بہتر تھا۔ طلبہ یونین میں آپ ان لڑکوں یا لڑکیوں کو منتخب کرتے تھے جو سب سے زیادہ ذہین ہوتے تھے۔ قیادت کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ طلبہ یونین کے قائدین بنتے تھے، چاہے کسی بھی جماعت کے ہوں۔ یہ ان کی ذہانت کا اعتراف ہوتا تھا۔
دوسری بات یہ کہ پوری دنیا کے حالات تبدیل ہوگئے۔ 1960ء کی دہائی کے آخر میں پوری دنیا میں طلبہ تحریکیں تھیں۔ تقریباً ہر دوسرے ملک میں طلبہ نے بغاوت کردی تھی۔ اس کی مختلف وجوہ تھیں۔ معاشی وجوہ بھی تھیں۔ یہ صورتحال 1970ء کی دہائی کے وسط تک رہی۔ اس کے بعد حالات بدل گئے۔ سوچ تبدیل ہوگئی۔ معاشی حالات مختلف ہوگئے۔ طلبہ یونینز کا اثر ختم ہوگیا۔ پھر طلبہ کی نئی نسل آئی جس نے سیاست اور تشدد کے خلاف ردعمل ظاہر کیا۔ انھوں نے طے کیا کہ وہ سیاست سے تعلق نہیں رکھیں گے۔ 1980ء کی دہائی کے آخر اور 1990 کی دہائی کے اوائل سے ہمارے ملک نہیں، پوری دنیا میں طلبہ غیر سیاسی ہوگئے۔
اب اگر آپ نوجوانوں کو متحرک دیکھ رہے ہیں تو یہ پچھلے دس سال کی سرگرمی ہے۔ ملینئیل کے نام سے جو نسل ہم نے دیکھی، وہ سیاست سے، ماضی سے، کسی شے سے تعلق نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے اندر سے کوئی رہنما نہیں نکلا، وہ اپنا کوئی فلسفہ پیش نہیں کرسکے، دوراندیش ثابت نہیں ہوئے تو پھر ایک ردعمل پیدا ہوا۔ اس ردعمل کا شکار نوجوان سیاست میں دلچسپی لینے لگے۔ یہ اچھی بات ہوئی کیونکہ پھر خواتین کو بااختیار بنانے کی تحریک شروع ہوئی، ماحولیات بہتر بنانے کی مہم کا آغاز ہوا لیکن اس کے ساتھ مقبولیت پسندی کا رجحان بھی سامنے آیا۔
شہروں کے متوسط طبقے کی نوجوان نسل کے سیاست میں اچانک دلچسپی لینے سے جو بڑا ووٹ بینک بنا، اس کے نتیجے میں عمران خان، نریندر مودی، ڈونلڈ ٹرمپ، بورس جانسن ہمارے سامنے ہیں۔ اچانک رجحان تبدیل ہوتا ہے تو یہی ہوتا ہے۔ فائدے بھی ہوتے ہیں اور نقصان بھی۔ یہ نسل الجھن کا شکار ہے۔ یہ لبرل ہیں لیکن بعض معاملات میں کنزرویٹو ہوجاتے ہیں۔ یہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں لیکن مقبولیت پسندی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ جب یہ لوگ صحیح غلط میں تمیز کرنے کے قابل ہوجائیں گے تو حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔