Staten Island ،نیویارک میں البانیہ سے تعلق رکھنے والے دو ہزار مسلمان گھرانے رہتے ہیں اور جمعے کی نماز میں یہ مسجد پوری طرح بھر جاتی ہے ۔ امام طاہر Kukaj بتاتے ہیں کہ یہ مسجد بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ’’البانیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں اور عام مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور یہ رجحان اب بھی جاری ہے ۔Van Dusen اسٹریٹ پر البانوی نسل کے مسلمانوں کی مسجد پہلے سے موجود تھی۔ یہ ایک چھوٹے سے گھر میں تھی اور اس سے علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہی تھیں۔‘‘
Kukaj کہتے ہیں کہ یہاں آنے والے نمازی مقامی چرچوں اور یہودی عباد ت گاہوں کے ساتھ مِل کر انسانی بھلائی کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں ، جیسے خون کا عطیہ دینا، ضرورت مندوں کے لیے کھانے پینے کی اشیاء جمع کرنا، سمر اور یوتھ کیمپ چلانا، اور معمر لوگوں کی عیادت کو جانا۔
نیو یارک کی سو سے زیادہ مساجد میں مین ہیٹن کی اپر ایسٹ سائڈ کا اسلامک سینٹر بھی شامل ہے جس کی عمارت بڑی شاندار ہے ۔ چھوٹی مسجدیں جن میں Staten Island کی مصری مسجد بھی شامل ہے ، عام گھر ہیں جنہیں مسجدوں میں تبدیل کر لیا گیا ہے۔ امام علی عبد الشکور محمد کہتے ہیں کہ کسی بھی دوسری عمارت کی طرح ، مسجد کی تعمیر میں مقامی حکومت کے ضابطو ں کی پابندی کرنی لازمی ہے۔
وہ کہتے ہیں’’انشااللہ ، مستقبل میں ، اگر نمازیوں نے ضابطے کی تمام کارروائیاں مکمل کر لیں اور وسائل جمع کر لیے تو وہ امریکی قانون کے مطابق اور مسجدیں تعمیر کر سکتے ہیں۔‘‘
نیو یارک میں Harlem کے علاقے کی مسجد میں ایک اسکول بھی قائم ہے اور مختلف سماجی خدمات فراہم کی جاتی ہیں ۔ مسجد نے کچھ جگہ چھوٹی چھوٹی دوکانوں کو لیز پر دے رکھا ہے ۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اس جگہ ہمیشہ سے یہ مسجد قائم رہی ہے ۔ لیکن در اصل یہاں پہلے ایک جوا خانہ ہو اکرتا تھا 1965 میں اسے گِرا کر یہاں مسجد تعمیر کی گئی ہے ۔
Jerrilynn Dodds نیو یارک کے سارا لارنس کالج میں ڈین ہیں۔ وہ نیو یارک کی مسجدوں کے بارے میں ایک کتاب کی مصنفہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 1960 کی دہائی کے آخر میں، جب غیر یورپی ملکوں سے تارکین وطن کی زیادہ سے زیادہ تعداد پر پابندی ختم کر دی گئی، تو امریکہ میں بڑی تعدادمیں مسلمان آنا شروع ہوئے ۔ وہ کہتی ہیں کہ شہر کی مسجدوںمیں، ایک ایسی مسجد بھی شامل ہے جو گراؤنڈ زیرو کےنزدیک مجوزہ اسلامک سینٹر سے چند بلاکس کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس مسجد کے بارے میں کسی قسم کے مخالفانہ جذبات کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے، جب کہ اُس اسلامی مرکز کی سخت مخالفت ہو رہی ہے جو ابھی منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہے ۔
انھوں نے کہا’’کسی عمارت میں جذبات کو مشتعل کرنے کی کتنی صلاحیت ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اُس کلچر میں عمارتوں کی کیا اہمیت ہے ۔نیو یارک میں ، ہمارے لیے عمارتیں بہت اہم ہیں ۔ ہم عمارتوں کے بارے میں جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ہم جس طرح انہیں علامتوں کا درجہ دے دیتے ہیں، اس طرح دوسرے مقامات پر نہیں کیا جاتا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اسلامی سینٹر کے بارے میں ، جو ابھی بنا بھی نہیں ہے، لوگوں کے جذبات کا ٹکراؤ دو ایسے ٹاورز سے ہوا ہے جن کی علامتی اہمیت بہت زیادہ ہے اور جو گیارہ ستمبر، 2001 کو تباہ ہو گئے تھے۔ تا ہم، Jerrilynn Dodds کہتی ہیں کہ کسی بھی عمارت کا اہم ترین عنصر اس کا ڈھانچہ نہیں، بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس عمارت میں موجود ہوتے ہیں۔