|
بھارتی سپریم کورٹ کی لائبریری میں 'انصاف کی دیوی' کا نیا اور تبدیل شدہ مجسمہ نصب کیے جانے پر ایک تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ جہاں ایک حلقہ اس تبدیلی کا خیرمقدم کر رہا ہے وہیں دوسرا حلقہ اس پر سوال اٹھا رہا ہے۔
نیا مجسمہ نصب کرنے کا فیصلہ 10 نومبر کو سبک دوش ہونے والے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کیا اور انھوں نے ہی گزشتہ دنوں اس کا افتتاح بھی کیا۔ سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کا الزام ہے کہ چیف جسٹس نے اس سے مشاورت کیے بغیر یکطرفہ طر پر یہ فیصلہ کیا ہے۔
روایتی مجسمہ میں انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہتی ہے۔ ایک ہاتھ میں ترازو اور دوسرے میں تلوار ہے۔ آنکھوں پر پٹی کو غیر جانبدار فیصلے، ترازو کو انصاف اور تلوار کو سزا یا قانون کی طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
لیکن نئے مجسمے میں 'انصاف کی دیوی' کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں، یعنی پٹی ہٹا دی گئی ہے۔ ایک ہاتھ میں ترازو تو موجود ہے لیکن دوسرے ہاتھ میں تلوار کی جگہ آئین کی کتاب ہے۔ اس کا لباس بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہ اب مغربی لباس کی جگہ ساڑھی زیب تن کیے ہوئے ہے۔
'برطانوی دور کی یاد مٹانا مقصد ہے'
اس تبدیلی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ آنکھوں سے پٹی ہٹا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اب انصاف سب کو مساوی انداز میں دیکھے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تلوار کی جگہ پر آئین کی کتاب کا مطلب ہے کہ عدلیہ کا کردار صرف سزا دینا نہیں بلکہ آئینی قدروں کو بحال کرنا ہے تاکہ سب کے ساتھ صاف ستھرا اور مساوی معاملہ ہو۔
چیف جسٹس کے دفتر کے ذرائع کے مطابق تلوار تشدد کی علامت ہے جب کہ عدلیہ کا کام آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ اس کاایک مقصد برطانوی دور کے تصور سے نجات حاصل کرنا بھی ہے۔ چیف جسٹس اس تبدیلی کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ملک کو سامراجی دور کی علامتوں سے آزادی حاصل کرنی چاہیے۔
چیف جسٹس کے دفتر کا یہ بھی کہنا ہے کہ انصاف کی دیوی کے ہاتھ میں ترازو کو اس لیے برقرار رکھا گیا ہے تاکہ انصاف میں توازن قائم رہے اور کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل فریقین کے دلائل کو ترازوں پر تولا جا سکے۔
بھارتی تہذیب اور ثقافت کی جھلک
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مختلف ملکوں میں انصاف کی دیوی کا لباس الگ الگ نظر آتا ہے۔ ان میں سے بیش تر مغربی لباس ہوتے ہیں۔ نئے مجسمے کو اس لیے ساڑھی پہنائی گئی ہے تاکہ اس سے بھارتی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہو سکے۔
مرکزی وزیرِ قانون ارجن رام میگھوال نے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے۔ انھوں نے خبررساں ادارے 'اے این آئی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تبدیلی ملکی آئین کے عظیم احترام کی عکاس ہے۔ ان کے مطابق اگر ججز حضرات دیکھیں گے نہیں تو فیصلہ کیسے کریں گے۔
بعض حلقوں کی جانب سے اس تبدیلی کی مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آنکھوں پر پٹی کا مطلب یہ تھا کہ غیر جانبداری کے ساتھ اور بلا لحاظ مذہب، مسلک، عہدہ، منصب اور مقام انصاف کیا جائے۔ لیکن اب جب کہ پٹی ہٹا دی گئی ہے تو کیا لوگوں کے مقام و مرتبے کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن نے بھی اس تبدیلی کی مخالفت کی ہے۔ ایسو سی ایشن نے ایک قرارداد منظور کر کے کہا ہے کہ ہم بھی انصاف کے انتظام میں برابر کے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ لیکن اس تبدیلی کے سلسلے میں ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی اطلاع دی گئی۔ ہم اس تبدیلی کی حقیقی وجوہات سے بالکل بے خبر ہیں۔
اس قرارداد پر بار ایسو سی ایشن کے صدر اور رکن پارلیمان کپل سبل اور ایکزیکٹیو کمیٹی کے تمام ارکان نے دستخط کیے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل رویندر کمار ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس سمجھتے ہیں کہ انھوں نے آنکھوں کی پٹی ہٹا کر انصاف کی دیوی کو آنکھیں بخش دی ہیں۔ دراصل اس پٹی کا مطلب یہ تھا کہ انصاف کسی شخص کی حیثیت سے متاثر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے پٹی اتارنے اور ہاتھ میں آئین کی کتاب دینے پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سے عدلیہ کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ لوگوں کو اس وقت انصاف ملے گا جب ججز حضرات بھارت کے آئین و قوانین کی پابندی کرتے ہوئے ایمانداری سے انصاف کریں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کے خلاف احتجاج میں شریک کارکنوں اور طلبہ کے خلاف دائر مقدمات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ 'جے این یو' کے سابق طالب علم عمر خالد وغیرہ چار سال سے جیل میں بند ہیں اور ان کے معاملات میں تاحال ٹرائل بھی شروع نہیں ہوا۔
ریویندر کمار ایڈووکیٹ سوال کرتے ہیں کہ اب جب کہ انصاف کی دیوی کی آنکھوں سے پٹی ہٹا دی گئی ہے، کیا ان لوگوں کے مقدمات میں کوئی پیش رفت ہو گی۔
سینئر تجزیہ کاروں کماری سنیتا اور بنس سباسٹین نے انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے لیے اپنے تجزیاتی مضمون میں اس کا جائزہ لیا ہے کہ کیا انصاف کی دیوی کا نیا مجسمہ انصاف کا نیا تصور پیش کرتا ہے۔
ان کے مطابق ایک ہاتھ میں آئین کی موجودگی اطمینان بخش ہے اور اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مقدمات کے فیصلے میں آئینی انتظامات و آئینی قدروں کا احترام کیا جائے گا۔ لیکن وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا آئین کی کتاب تلوار کی جگہ لے سکتی ہے۔
ان کا استدلال ہے کہ تلوار صرف سزا کی علامت نہیں ہے بلکہ وہ قانون کی اتھارٹی اور قانون کی طاقت کی بھی علامت ہے۔ آئین کی کتاب اس اتھارٹی کی عکاسی نہیں کرتی۔
نیا مجسمہ ساڑھے چھ فٹ اونچا ہے اور اسے فائبر گلاس سے بنایا گیا ہے۔ اسے ایک آرٹسٹ ونود گوسوامی نے بنایا ہے۔
جہاں تک انصاف کی دیوی کے مجسمے کی بات ہے تو یہ تصور قدیم مصری، یونانی اور رومن تہذیبوں سے آیا ہے۔ انصاف کی دیوی کا سب سے پہلا وجود مصر میں 2300 بی سی میں پایا گیا۔ وہاں ماعت دیوی کو سچائی، مساوات اور انصاف کی علامت مانا جاتا تھا۔
یونان میں تھیمس دیوی کو انصاف کی علامت مانا جاتا تھا۔ تھیمس کا لفظی معنیٰ ہے ’خدائی قانون‘۔ اس کا مجسمہ عام طور پر ترازو اور تلوار کے ساتھ پایا گیا ہے۔ البتہ اس کی آنکھوں پر پٹی نہیں بندھی تھی۔ اس کی کھلی آنکھیں اس بات کی علامت تھیں کہ انصاف اندھا نہیں بلکہ اس خدائی قانون سے جو کہ دنیا چلا رہا ہے، آگاہ ہے۔
قدیم روم میں تھیمس کو ’جسٹیشیا‘ کہا گیا۔ یعنی انصاف کی علامت۔ شہنشاہ آگسٹس نے جسٹیشیا کی علامت کو مضبوط کیا اور اسے رومن قانون سے منسلک کر دیا۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انصاف کی دیوی کا تصور صدیاں سے چلا آرہا ہے۔
جب بھارت میں برطانوی حکومت قائم ہوئی تو اس نے یہاں کے نظامِ انصاف کو تبدیل کیا اور لیڈی جسٹس یا انصاف کی دیوی کو متعارف کرایا۔
سب سے پہلے کولکتہ ہائی کورٹ میں 1872 میں انصاف کی دیوی کی تعمیر ہوئی۔ اس کی شبیہ عمارت کو سپورٹ کرنے والے ایک ستون پر کندہ کی گئی۔
بامبے ہائی کورٹ کی عمارت کے اوپر بھی انصاف کی دیوی کا مسجمہ نصب ہے۔ دیگر عدالتوں کے احاطوں میں بھی انصاف کی دیوی کے مسجمے نصب ہیں۔