نوزائیدہ بچے اور انہیں درپیش خطرات

اس تحقیق کے مطابق، جسے ’دی لینسیٹ‘ میں شائع کیا گیا، نوزائیدہ بچوں میں مختلف عوارض ہونے کے 35 لاکھ کیسز جنوبی ایشیا، 25 لاکھ کیسز افریقہ، جبکہ لاطینی امریکہ میں آٹھ لاکھ کیسز درج ہوئے

ایک نئی تحقیق کے مطابق، دنیا بھر میں تقریباً 70 لاکھ نوزائیدہ بچے مہلک انفیکشنز کا نشانہ بنتے ہیں اور زیادہ تر ان بچوں کو لاحق ہونے والے امراض کا علاج نہیں کیا جاتا۔

ان امراض میں سیپسز، دماغ کی سوزش اور نمونیا جیسے عوارض شامل ہیں۔

اس تحقیق کے مطابق، جسے ’دی لینسیٹ‘ میں شائع کیا گیا، نوزائیدہ بچوں میں مختلف عوارض ہونے کے35 لاکھ کیسز جنوبی ایشیا، 25 لاکھ کیسز افریقہ، جبکہ لاطینی امریکہ میں آٹھ لاکھ کیسز ریکارڈ پر آئے۔

اس تحقیق کی سربراہی کرنے والی پروفیسر جوئے لان کہتی ہیں کہ، ’یہ تخمینے محض ہندسے نہیں بلکہ یہ اعداد و شمار ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہماری دنیا میں کتنے نوزائیدہ بچوں کو جان لیوا امراض لاحق ہوتے ہیں۔ اور ہم ان سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں‘؟

پروفیسر جوئے لان، ’لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن‘ اور بچوں کے عالمی ادارے ’سیو دی چلڈرن‘ سے منسلک ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ، ’ہم یہ جانتے ہیں کہ ہر سال تقریباً 30 لاکھ نوزائیدہ بچے ہلاک ہو جاتے ہیں‘۔

اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کے زیادہ تر امراض کی وجہ وائرس ہوتے ہیں۔ یہ وائرس بچوں میں امراض کی وجہ بنتے ہیں۔ مگر اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں کہ بچوں میں امراض کی بڑی وجہ وائرس ہیں یا پھر بیکٹیریا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ بیکٹیریا سے پیدا ہونے والے امراض کا علاج اینٹی بائیٹیکس سے کیا جا سکتا ہے۔ مگر، ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں اس بات کا تعین ہی نہیں کیا جاتا کہ بچے کو کوئی مرض لاحق ہے؛ اور اگر بچہ کسی مرض میں مبتلا ہوگیا ہے تو وہ کتنا سنگین مسئلہ ہے۔

پروفیسر جوئے کے مطابق، ’ابھی تک دنیا بھر میں چار کروڑ بچے گھروں میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اور گمان یہ کیا جاتا ہے کہ ان خواتین میں جب یہ حاملہ تھیں، زیادہ دیکھ بھال نہیں کی گئی ہوگی۔ بعض اوقات گھروں میں بچے کی پیدائش کے وقت صفائی ستھرائی کا اس طرح خیال نہیں رکھا جاتا جس طرح کہ ہسپتالوں میں رکھا جاتا ہے‘۔