کرونا وائرس سے صحت کے عملے کو بھی اتنا ہی خطرہ ہے جتنا عام لوگوں کو کیونکہ ان کا زیادہ وقت ان مریضوں کے ساتھ گزرتا ہے جنہیں یہ وائرس لاحق ہو چکا ہوتا ہے یا پھر معمول کے معائنے میں انہیں علم ہی نہیں ہو پاتا کہ ان میں سے کون کووڈ 19 کا شکار ہو چکا ہے۔
پیر کی سہ پہر تک دنیا بھر میں 13 لاکھ 40 ہزار مریضوں کی تصدیق ہو چکی ہے اور 74 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ امریکہ میں کل تین لاکھ 63 ہزار مریض سامنے آ چکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد 10 ہزار 700 سے زیادہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین اس ہفتے کو سخت ترین ہفتہ قرار دے چکے ہیں۔ امریکی سرجن جنرل اسے 9/11 کا لمحہ کہہ چکے ہیں۔ نیویارک میں اس وقت تک ایک لاکھ تیس ہزار سے زیادہ مریضوں کی تصدیق ہو چکی ہے اور چار ہزار سات سو سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
نیو یارک کے گورنر اینڈریو کومو نے آج کی نیوز بریفنگ میں بتایا ہے کہ آئی سی یو اور اسپتالوں میں داخل ہونے والے نئے مریضوں کی تعداد میں کمی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ جو گراف مستقل اوپر جا رہا تھا، اس میں کچھ صورتِ حال تبدیل ہوئی ہے۔
تاہم جو لوگ اس وائرس کا شکار ہو چکے وہ اگر طب کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں تو بات تشویش کی ہے کیونکہ بیماری کی صورت میں علاج مہیا کرنے والوں کی صحت سب سے مقدم ہونی چاہیئے۔
نیو یارک میں ڈاکٹروں کا ایک خاندان اپنے پیشہ ورانہ فرائض ادا کرتے ہوئے کووڈ 19 کا شکار ہوا۔ اس ایک گھر میں چار بہن بھائی ہیں اور چاروں ڈاکٹر ہیں۔ اور وہ چاروں اور ان کی والدہ کووڈ 19 کا شکار ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر سیّار خان بہن بھائیوں میں بڑے ہیں۔ وہ گردوں کے امراض کے ماہر ہیں اور نیویارک کے نارتھ ویل یونیورسٹی اسپتال میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں انہیں کرونا وائرس ان کے مریضوں میں سے کسی سے ملا کیونکہ ان کے مریضوں میں اس کی تصدیق ہوئی ہے۔
اپنی کیفیت بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ انہیں ابتداء میں بخار اور نزلے جیسی تکلیف ہوئی مگر پھر اس وائرس کی تصدیق ہو گئی۔ انہوں نے خود کو گھر والوں سے الگ تھلگ کر لیا اور خود ہی اپنا علاج کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کچھ دوائیں اور کچھ گھریلو ٹوٹکے استعمال کئے اور اب وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ جب کہ ان کے دیگر بھائی ان کی بہن اور والدہ صحتیاب ہو رہے ہیں۔
امریکہ میں ملیریا کی ایک دوا کے بارے میں مختلف ماہرین کی مختلف رائے ہے اور صدر ٹرمپ اس دوا کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں جب کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ہم نے اس دوا یعنی ہائیڈروکسی کلوروکوئین کے بارے میں ڈاکٹر سیّار خان سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود یہ دوا استعمال کی ہے۔ وہ اپنے مریضوں کو بھی یہ دوا دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ وٹامن سی اور زنک بھی تجویز کر رہے ہیں۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہائیڈروکسی کلوروکوئین کے سائیڈ افیکٹس بھی ہیں اس لئے ڈاکٹر اسے تجویز کرنے سے پہلے مریضوں کا باقاعدہ ٹیسٹ کرتے ہیں چنانچہ اسے ازخود استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں۔
کرونا وائرس کی وبا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خود صحت کے عملے کے عزیز و اقارب بھی بعض اوقات انہیں کے اسپتالوں میں لائے جاتے ہیں اور وہ اپنے پیاروں کو اس مشکل میں گرفتار دیکھ کر بے بسی محسوس کرتے ہیں۔
ڈاکٹر خان کو بھی ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ان کے ایک عزیز ان کے ہی اسپتال میں کرونا وائرس کا شکار ہو کر وینٹی لیٹر پر ہیں۔
42 سالہ ہیرا خان کو بظاہر اور کوئی بیماری نہیں تھی مگر کووڈ 19 کا شکار ہونے کے بعد علم ہوا کہ انہیں ذیابیطس بھی ہے اور اسی وجہ سے ان کی حالت بگڑ گئی۔ ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ کرونا وائرس ان لوگوں کے لئے خطرناک ثابت ہوتا ہے جنہیں پہلے سے کوئی بیماری لاحق ہو خواہ ان کی عمر کچھ بھی ہو۔
کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کے لوگوں کو ایک ایسے ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے کہ لوگ تو کیا اب خود ڈاکٹر اور نرسیں بھی اسپتال جانے سے ڈرنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر سیّار خان کہتے ہیں اپنی دس سال کی پریکٹس کے دوران انہوں نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ تاہم وہ کہتے ہیں ڈاکٹر ہوں یا نرسیں صحت کا پورا عملہ اپنے فرائض پوری جانفشانی سے ادا کر رہا ہے۔