سری لنکا کے وزیرِ اعظم نے ملک کو درپیش معاشی حالات سے متعلق حقائق جاری کرتے ہوئے خبردار کر دیا ہے کہ آئندہ آنے والے دو ماہ انتہائی مشکل ہوں گے۔
ایک ہفتے قبل وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالنے والے وکرمے سنگھے نے گزشتہ روز قوم سے خطاب میں بتایا کہ ملک میں صرف ایک دن کا پیٹرول باقی رہ گیا اور آئندہ دو ماہ انتہائی مشکل ہوں گے۔ ملک کو ضروری اشیا کی درآمد کے لیے فوری طور پر ساڑھے سات کروڑ ڈالر درکار ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق پیٹرول کی قلت کے باعث کولمبو سمیت سری لنکا کے مختلف علاقوں میں پیٹرول پمپس کے باہر گاڑیوں کی طویل قطاریں موجود ہیں۔
سری لنکا کے وزیرِ توانائی نے شہریوں کو کہا ہے کہ وہ پیٹرول پمپس پر طویل قطاریں نہ لگائیں جب کہ ایندھن کی قلت کی وجہ سے ملک کے متعدد علاقوں کو بجلی کی طویل بندش کا بھی سامنا ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے جاری سنگین معاشی بحران کے خلاف احتجاج حکومت مخالف احتجاجی لہر میں بدل گیا تھا۔ پرتشدد مظاہروں میں صدر گوتابایا اور وزیرِ اعظم مہندا راجاپکسے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔مظاہروں کے بعد مہندا راجاپکسے وزارتِ عظمی سے مستعفی ہوگئے تھے جس کے بعد صدر نے سینئر سیاست دان وکرمے سنگھے کو وزیرِ اعظم نامزد کیا تھا۔
SEE ALSO: پارلیمنٹ میں ایک نشست رکھنے والے وکرمے سنگھے سری لنکا کے وزیرِ اعظم بن گئےمسائل، حقائق اور حل
گزشتہ جمعرات کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیرِ اعظم وکرمے سنگھے نے قوم سے پہلے خطاب میں کہا ہے کہ اس وقت ملک میں صرف ایک دن کا پیٹرول باقی رہ گیا ہے۔آئندہ دو ماہ انتہائی مشکل ہوں گے۔ ہمیں اس عرصے کے دوران چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے قربانیوں کی تیاری کرنا ہوگی۔
انہوں نے اپنے خطاب کے اہم مندرجات سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حقائق بہت ناخوشگوار اور ہولناک ہیں لیکن وہ عوام سے سچ چھپانا نہیں چاہتے۔
انہوں ںے بتایا کہ اس وقت حکومت کی آمدن 16 کھرب سری لنکن روپے ہے جبکہ کل اخراجات 40 کھرب ہیں اور مجموعی بجٹ خسارہ 24 کھرب روپے ہو چکا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا 13 فی صد بنتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نومبر 2019 تک سری لنکا کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ساڑھے سات ارب ڈالر تھے لیکن آج دس لاکھ ڈالر کا انتظام کرنا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔
1. The next couple of months will be the most difficult ones of our lives. I have no desire to hide the truth and to lie to the public. Although these facts are unpleasant and terrifying, this is the true situation. #SriLankaEconomicCrisis
— Ranil Wickremesinghe (@RW_UNP) May 16, 2022
وکرمے سنگھے نے بتایا کہ ملک میں ایندھن کی قلت دور کرنے کے لیے فوری طور پر ساڑھے سات کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے جب کہ ملک میں صرف ایک دن کا پیٹرول باقی رہ گیا ہے۔
وزیرِ اعظم نے بتایا کہ بھارت سے کریڈٹ لائن پر ڈیزل کی دو شپمنٹ کا انتظام کرلیا ہے جو 18 مئی اور یکم جون کو سری لنکا پہنچے گا۔ اسی طرح پیٹرول کی دو شپمنٹ 18 اور 29 مئی کو پہنچے گی جب کہ حکومت اوپن مارکیٹ سے ڈالر حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں اپنےخطاب میں یہ بھی بتایا کہ ملک میں اس وقت 14 انتہائی ضروری ادویہ کی بھی قلت کا سامنا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو جب وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو میں نے صرف سیاسی لیڈر کے طور پر نہیں بلکہ قومی لیڈر کے طور پر ایسا کیا تھا۔انہوں ںے کہا کہ میں قوم کے لیے اپنا فرض ادا کروں گا، یہ میر اآپ سے وعدہ ہے۔
’کم از کم صورت حال تو واضح ہے‘
خطاب کے بعد وزیر اعظم وکرمے سنگھے نے معاشی صورتِ حال سے متعلق جس طرح سلسلہ وار ٹوئٹس میں اعداد و شمار سے حالات کی منظر کشی کی ہے اس پر ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ کم از کم وزیر اعظم نے دوٹوک انداز میں مسائل لوگوں کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ انہوں ںے اپنے ٹوئٹس میں بجلی کی قلت کے خاتمے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا ہے اور زرِ مبادلہ کے بحران کو ختم کرنے کے لیے جلد حکمتِ عملی سامنے لانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک ’ولسن سینٹر‘ کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ سری لنکا کے وزیرِ اعظم کو اس بات کا کریڈٹ تو جاتا ہے کہ انہوں نے دیانت داری سے ملک کو درپیش بحران کے بارے میں حقائق بتا دیے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس نے نمٹنے کی حکمتِ عملی بھی دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نے اعتراف کیا ہے کہ عوام کو فوری طور پر کن سخت حالات کا سامنا ہوگا۔ دیکھتے ہیں یہ صورتِ حال کب تک جاری رہتی ہے۔
Credit to Sri Lanka’s new PM for being honest about the scale of his country’s crisis, for quickly coming out with a recovery strategy, and for admitting how tough things could get for the populace in the immediate term. We will see how well his tweet ages. https://t.co/05HWGoWsEc
— Michael Kugelman (@MichaelKugelman) May 16, 2022
سابق امریکی سفارت کار اور یو ایس انڈیا بزنس کونسل کے صدر اتل کشپ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نے شفافیت اور دیانت داری کے ساتھ معیشت کی تباہ حالی کے حقائق اور ان کا حل بھی بیان کردیا ہے۔
A brutally honest, transparent, and sadly insightful thread from @RW_UNP about the serious and devastating economic mess left to him to try to fix. I pray he and his team can get quick help to stabilize #SriLanka%27s public accounts and ease the suffering of the people. 🙏🏼 https://t.co/oKe2XTID1i
— Atul Keshap (@USAmbKeshap) May 16, 2022
سری لنکا سے تعلق رکھنے والے سماجی محقق ڈاکٹر سنجنا ہتوتوا نے بھی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ وہ کئی بار وزیرِ اعظم کی تقریر پڑھ چکے ہیں اور ان کے پاس کہنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نیوزی لینڈ میں ہوں اور ہر کوئی مجھ سے ملک کے بارے میں پوچھتا ہے۔ وزیرِ اعظم کے ٹوئٹ سے کم از کم میرے پاس اس کا واضح جواب تو ہے۔
Having read this speech several times over, am at a loss for words. When those in New Zealand ask me how things are back home, I now at least have clear answer. Evisceration of country by Rajapaksa family & Govt beyond comprehension, & unprecedented. Accountability critical. https://t.co/aaFTGEvfD7
— Dr. Sanjana Hattotuwa (@sanjanah) May 16, 2022
انہوں نے مزید لکھا کہ راجا پکسے خاندان اور ان کی حکومت نے ملک کو جس طرح تباہ کیا وہ ناقابلِ فہم ہے اور اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ احتساب بہت ضروری ہے۔
’جو پاکستان کی حکومت نہیں کرسکی۔۔۔‘
سری لنکا کی صورتِ حال کا موازنہ بھارت اور پاکستان کی صورتِ حال سے کیا جارہا ہے۔
بھارت میں سماجی تنظیم ہیومینیٹرین ایڈ انٹرنیشنل کے بانی سدھانشو سنگھ نے وزیرِ اعظم وکرمے سنگھے کی سوشل میڈیا پوسٹ پر تبصرہ کیا ہے کہ یہ بہت ہولناک حقائق ہیں۔ امید کرتا ہوں سری لنکا اس بحران سے نکل آئے گا۔ سری لنکا ہی نہیں پوری دنیا کی سیاسی قیادت کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ آپ کو ملکی مفاد اپنے اقتدار پر قربان نہیں کرنا چاہیے۔
The situation is scary. I really hope Sri Lanka comes out of the crisis. The political leadership, of not only Sri Lanka but other countries also, need to take a lesson out of it. You can%27t put your country at stake for the sake of power. https://t.co/ZedpIUNZCs
— Sudhanshu S Singh (@sssingh21) May 17, 2022
پاکستان میں روپے کی گرتی ہوئی قدر اور خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کے بارے میں حکومتی اقدامات میں تاخیر سے یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ یہاں بھی سری لنکا جیسے حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ولسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا مائیکل کوگلمین نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جو کام پاکستان کی نئی حکومت کئی ہفتوں کے دوران نہیں کر سکی سری لنکا کے وزیرِ اعظم نے وہ ایک ٹوئٹر تھریڈ میں کر دکھایا۔
انہوں نے حکومتِ پاکستان کو تجویز دی کہ کڑوی گولی نگلنا ہوگی۔ عوام تک جائیں اور انہیں بتائیں حالات کتنے خراب ہوسکتے ہیں اور ساتھ ہی ان مسائل سے نکلنے کی حکمتِ عملی بھی بتائیں۔
Sri Lanka’s new PM has done in a single tweet thread what Pakistan’s new government hasn’t done over its several weeks in power: swallow a bitter political pill, level with the public, and talk about how bad things could get while also laying out a detailed strategy for recovery.
— Michael Kugelman (@MichaelKugelman) May 16, 2022
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر حسین حقانی نے بھی سری لنکا کے وزیرِ اعظم کے بیان پر تبصرہ کیا کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے حقائق رکھ دیے ہیں۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ سری لنکا کے وزیرِ اعظم نے عوام کو خوش کرنے کے لیے ’گھبرانا نہیں ہے‘ کا دلاسا نہیں دیا اور نہ ہی غیر ملکی سازش کی بات کی۔ ٹھوس حقائق بیان کر دیے ہیں۔ پاکستان میں بھی کسی نہ کسی کو ایک دن یہ کرنا ہی ہوگا۔
Sri Lanka’s new PM has done in a single tweet thread what Pakistan’s new government hasn’t done over its several weeks in power: swallow a bitter political pill, level with the public, and talk about how bad things could get while also laying out a detailed strategy for recovery.
— Michael Kugelman (@MichaelKugelman) May 16, 2022
سری لنکا کے وزیرِ اعظم وکرمے سنگھے نے ابھی تک موجودہ حالات میں انتہائی اہم وزارتِ خزانہ سمیت کابینہ کے دیگر وزرا کے ناموں کا اعلان نہیں کیا ۔ وزیرِ خزانہ ہی نے ملک کو درکار مالیاتی معاونت کے لیے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کرنے ہیں۔
سابق وزیرِ خزانہ علی صبری نے آئی ایم ایف کے ساتھ ابتدائی مذاکرات کیے تھے تاہم گزشتہ ہفتے انہوں نے بھی وزیرِ اعظم مہندا راجاپکسے کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق نئی حکومت کی تشکیل کے بعد بھی احتجاج کا سلسلہ رکا نہیں ہے اور مظاہرین صدر گوٹابایا راجا پکسے کے استعفی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
دوسری جانب ملک کے دارالحکومت کولمبو میں پیٹرول پمپوں کے سامن رکشاؤں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں جب کہ کئی شہروں میں املاک اور سرکاری عہدے داران پر حملوں کی اطلاعات بھی گردش میں ہیں۔