کراچی کے گنجان آباد علاقے سعودآباد، ملیر کے مکین پچھلے کئی دنوں سے ایک ایسے مرض میں مبتلا ہیں جو ان کے لئے خوف اور تکلیف کا باعث ہے۔بیشتر مریضوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا مرض معلوم نہیں جبکہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ علاقے میں ’چیکن گونیا ‘نامی وبا پھیل گئی ہے اور اب تک کئی ہزار مریض علاج کی غرض سے ’سندھ گورنمنٹ بیبھانی اسپتال‘ آچکے ہیں، جو یہاں کا سب سے اہم سرکاری اسپتال ہے۔
اسپتال کی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ریحانہ باجوہ کا کہنا ہے ’’پچھلے کئی دن سے تواتر کے ساتھ ایسے مریض آ رہے ہیں، جنہیں انتہائی تیز بخار اور جوڑوں میں درد کی شکایت ہے۔ مریضوں کا کہنا ہے کہ انہیں جسم اور خاص طور سے ہاتھ پیروں کا درد اتنا شدید ہے کہ وہ ٹھیک سے کھڑے بھی نہیں ہو سکتے اسی لئے زیادہ تر افراد دوستوں یا عزیز و اقارب یا دیگر اہل خانہ کا سہارا لے کر چلتے ہوئے اسپتال آتے ہیں۔ کچھ کو تو اس سے بھی بری کنڈیشن میں اسپتال لایا گیا تھا۔‘‘
ریحانہ باجوہ کا کہنا ہے کہ مرض کی ابھی پوری طرح تشخیص ہیں ہوسکی آیا یہ ’چیکن گونیا ‘ہے یا نہیں کیوں کہ زیادہ تر وائرل بیماریوں کی علامات ایک جیسی ہوتی ہیں مثلاً تیز بخار اور جوڑوں میں درد۔ چیکن گونیا مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ مچھر چیکن گونیا کے مریض کا خون چوس کر کسی دوسرے صحت مند شخص کو کاٹ لے تو بھی اس سے مرض بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔‘‘
مرض پھیلنے کی اطلاع نے علاقہ مکینوں کو فکر مند کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور حکام بالا کو بھی خبردار کر دیا ہے۔ پیر کو صوبائی وزیر صحت سکندر میندھرو اور میئر کراچی وسیم اختر نے بھی اسپتال کا ہنگامہ دورہ کیا اور علاج معالجے کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ مریضوں سے ان کی خیریت بھی دریافت کی۔
حکومت سندھ نے مرض کو پھیلنے سے روکنے کے لئے فوری طور پر اندرون سندھ اور اسلام آباد سے ماہرین کی ٹیمیں کراچی بلا لی ہیں۔ تین ماہرین پر مشتمل ایک ایسی ہی ٹیم نے پیر کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ انہوں نے شہر آتے ہی مرض کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
مختیار حسین کھوکھر ماہر اینٹامولوجسٹ ہیں جبکہ مختیار احمد چنا میڈیکل اینٹا مولوجسٹ ہیں۔ دونوں کا تعلق ملیریا کنٹرول پروگرام جامشورہ سے ہے۔
مختیار حسین کھوکھر نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا ’’ہماری تین رکنی ٹیم آج ہی کراچی پہنچی ہے۔ یہاں آتے ہی ہم نے پانی کے نمونے حاصل کرلئے ہیں جبکہ لاروا پر بھی تحقیق شروع کردی ہے۔ کل اس سلسلے میں مزید ماہرین کے ساتھ مذاکرات ہوں گے جس کے بعد سب سے پہلے یہ پتہ لگایا جائے گا کہ مرض اصل میں ہے کیا اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔ ‘‘
ملیریا کنٹرول پروگرام کے ایک اور ماہر مختیار چنا نے ایک سوال پر بتایا کہ ’’مرض کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ ابھی لیبارٹری ٹیسٹ ہونا باقی ہے۔رزلٹ ملیر اور مضافاتی علاقوں میں تحقیقات مکمل کرنے کے بعد ہی اخذ کیا جائے گا۔ چیکن گونیا کا پوری دنیا میں کوئی مخصوص علاج نہیں کیونکہ یہ ایک وائرس ہے، اسی وائرس کی تحقیقات ہونا ابھی باقی ہیں‘‘۔
ایک اور ماہر ڈاکٹر مسعود سولنگی کا کہنا ہے کراچی کے بیشتر اور خاص کر ملیر، کھوکھرا پار، سعودآباد میں واقع تمام اسپتالوں میں چیکن گونیا کی تشخیص کی سہولت نہیں۔ اس علاقے کے ایک نجی اسپتال میں چیکن گونیا کا ایک کیس رپورٹ ہوا تھا اسی کی بنا پر علاقہ مکینوں نے ازخود اس مرض کو چیکن گونیا سمجھ لیا۔
سندھ گورنمنٹ اسپتال میں زیر علاج ایک مرض سلمان نے وی او اے کو بتایا کہ وہ اور اس کی والدہ پرسوں سے ایک سو تین اور ایک سو چار بخار میں مبتلا ہیں جبکہ درد کے مارے میرے ہاتھ پیروں سے کام بھی نہیں ہو رہا میں ایک فیکٹری ملازم ہوں۔ لیکن بیماری کی وجہ سے چھٹیوں پر ہوں۔‘‘
علاج کے حوالے سے کئے گئے ایک سوال پر سلمان نے بتایا کہ اسے درد ختم کرنے کی چار ٹیبلٹس دی گئی ہیں۔ ٹیبلٹ کا نام پیراسیٹامول ہے جبکہ ایک انجکشن لکھ کر دیا ہے جو مجھے گھر جا کر لگوانا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اسپتال والے کس کو کچھ نہیں دے رہے۔‘‘
ڈاکٹر سولنگی کا کہنا ہے کہ ’’تیز بخار چار سے چھ دن رہتا ہے اورجوڑوں میں درد دو ہفتوں سے زیادہ رہتا ہے اس لئے وائرس پر پیراسیٹامول سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ واحد احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ مچھروں سے بچا جائے‘‘۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی اطلاع کے مطابق چکن گونیا ایک وائرل بیماری ہے جو مچھروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے۔ اس مرض کی وجہ سے مریض کو تیز بخار اور جوڑوں میں درد، پٹھوں میں درد، سردرد، الٹی، کمزوری ہوتی ہے۔
بیماری کا نام کیما کونڈے زبان سے اخذکیا گیا ہے جس کا مطلب گرہ پڑ جانا یا مڑ جانا ہوتا یے۔ چکن گونیا سے جوڑوں میں درد ہوتا ہے جس کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔ اس مرض کا کوئی علاج نہیں۔ اس کے علاج میں علامات کے خاتمے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ چکن گونیا کے پیھلنے کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ انسانی آبادیوں میں مچھروں کی افزائش ہے۔
ملیر ہی کیوں ۔۔۔؟
چونکہ یہ ’نامعلوم بیماری‘ شہر کے ایک علاقے میں پھیلی ہے اس لئے یہ سوال باعث حیرانی ہے کہ صرف ملیر ہی ان کے نشانے پر کیوں اور کیسے آیا؟ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ علاقے میں ایک طویل عرصے سے صفائی ستھرائی کا کام تعطل کا شکار ہے اس لئے سڑکوں اور گلیوں میں جمع کچرے سے حشرات الارض پیدا ہو رہے ہیں ان میں مچھر سر فہرست ہے۔
کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور ابلتے گٹروں سے نکلنے والا گندا پانی سے اس بیماری کو پھیلانے کا سبب ہو سکتا ہے، جبکہ ایک بڑا نالہ بھی علاقے سے ہو کر گزرتا ہے جو عرصے سے صاف نہیں ہوا اور اس سے تعفن اٹھتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے قریب سے ہو کر گزرتے وقت ناک اور منہ پر رومال رکھنا پڑتا ہے۔
کھلا نالہ، بہترے گٹر، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور گندگی کے سبب علاقے میں مچھروں کی بھرمار ہے۔ یہی مچھر نامعلوم مرض پھیلانے کا سبب ہوسکتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھر کاٹنے سے جسم میں سوڈیم کی کمی ہوجاتی ہے جس کے باعث انسان شدید بخار میں مبتلا اور جسم لاغر ہو جاتا ہے۔ چمن کالونی، جعفر طیار سوسائٹی، ملیر، سعودآباد، جناح اسکوائر، کورنگی کئی دیگر علاقے اس کی زد میں ہیں۔ مقامی میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ اس مرض سے یومیہ آٹھ سو سے ایک ہزار افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر جلد حفاظتی اقدامات نہ کئے گئے تو صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
وفاقی وزارت قومی صحت نے چیکن گنیا وائرس کی اطلاعات کو غیر مصدقہ قرار دیا ہے۔ تاہم، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس پر اسرار بیماری سے متعلق رپورٹ طلب کر لی ہے۔ دوسری جانب ڈائریکٹر ہیلتھ نے تحقیق کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔